میرا آخری خط ۔ فدائی دیدگ بہار / میرین بلوچ

1695

میرا آخری خط

تحریر:فدائی دیدگ بہار / میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

29/8/2021

یہ میرا آخری خط ہے، جب تم اسے پڑھوگے تو شاید یہ مدتوں پہلے لکھا ہوا ہوگا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب بالکل خیریت سے ہوں گے اور خدا وند آپ لوگوں کو ہمہ وقت خوش اور سلامت رکھے۔

جب میرا یہ خط آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا تو اس وقت میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہونگا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے مرنے کے بعد آپ لوگوں کی آنگن میں خوشیوں اور خوشبوؤں کے میلے لگیں گے لیکن تمہارے ہر اشک میں، زخم دل کے لہو کے ہر قطرے میں میں شریک ہونگا۔

میرا یقین ہے کہ میں رہوں یا نہ رہوں لیکن آپ لوگوں کے خیالوں میں ہر روز ملوں گا اگر ہوسکے تو آخری خط ضرور پڑھ لینا کیونکہ یہ میرے زندگی کا آخری خط ہے، شاید جس میں کوئی سعادت کی شئے موجود نہیں۔

گواڑخانِ زمین!
میں تمہارے افسانوں کا وہ کارست ہوں، جو ہر وقت بغاوت میں رہتا ہے اور آپکا وجود ہی میری بغاوت ہے لیکن جس فرض کو ادا کرنے کیلئے میں نکلا ہوں، میں جانتا ہوں، وہ قرض اتارنے کیلئے کافی نہیں۔ گواڑخانِ زمین میں جانتا ہوں کہ تم ہزاروں غم، دکھ، تکالیف، عظیم فرزندوں کی بیگواہی، شہادت اور دشمن کی زوراکی اور نا انصافیوں کے باوجود پھر بھی سینہ سپر ہمیشہ کھڑے ہو اور میں بے بس بس تمہیں ہر وقت اسی روپ میں دیکھتا رہتا ہوں، گواڑخانِ زمین تم مجھے اسلیئے پسند ہو کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو۔

تمہارے عشق نے مجھے ادب سے جوڑا، مجھے عبادت کرنے کا سلیقہ سکھایا، گواڑخان زمین اب تو تم میرا عشق بن چکی ہو اور تمہاری حسن میری عبادت۔ تمہارے علاوہ میرے سامنے کوئی چیز معنی نہیں رکھتا، اسلیئے میں کہتا ہوں کہ تم کبھی بھی مر نہیں سکتی ہو کیونکہ تم ہر شئے میں ہو۔

تم اور تمہاری کہانی کا ہر موڑ مجھ میں پیوست ہے، میں نہیں بلکہ اس زمین پر بسی ہر شئے تمہیں تصور کرتی ہے، وہ تمہیں دیکھتے ہیں اور تمہاری سنگلاخ پہاڑوں کو سُنتے ہیں، وہ بھی تمہاری محبت میں بغاوت کرتے رہتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ تمہاری عشق میں کسی کو بھی فنا ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ جب ارادے پختہ ہوں تو شاید ناممکن کا کوئی گمان بھی انسان کے ذہن میں نہیں رہتا اور میرا ایمان ہے کہ شکست ہمیشہ باطل کی ہوتی ہے۔

کیونکہ تم میری ھستی ہو، مقدر ہو کیونکہ تمہاری دل کی دھڑکن بولان، میری سانسوں میں اور تگران میری روح میں پیوند ہے۔

بولان میں شرمندہ ہوں کہ تمہارے لیئے کچھ نہ کرسکا اور تمہیں اپنے سینے سے لگا نہ سکا، بولان میں مرید تو نہیں بن سکتا، جس نے تمہارے لیئے 15 گوپشان میں ایک لمبی خط تحریر کی تھی، جسکی شاعری بھی تم سے اور ھانل سے ہی جڑی ہے لیکن تم یہ بھی شکوہ نہ کرنا کہ میں نے تمہیں یاد نہیں کیا، تم تو میرے دل کی دھڑکن ہو جس میں ہمہ وقت دھڑکتے رہتے ہو، اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو میرے قابل دوستوں سے پوچھو کہ میں نے ہر گفتگو میں ہمہ وقت آپکا ہی زکر کیا اور مجھے یقین ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی یہ دل دھڑکتا رہے گا۔

والدین کے نام!
زندگی سے عزیز تر امی جان اور پیارے ابا جان،
امید رکھتا ہوں کہ آپ سلامت ہونگے اور دعا گو ہوں کہ خدا وند آپ لوگوں کو خوش اور سلامت رکھے۔

ابا جان کئی سال بیت گئے کہ تم سے نہ ملاقات ہوئی اور نہ تم سے فون پر بات چیت ہوئی، میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا ہو اور مجھے پتہ ہے کہ یہ سفر کھٹن ہے لیکن حوصلے پہاڑوں کو بھی ہلا ڈالتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد شاید تم دل ہی دل میں مجھ پر فخر محسوس کر رہے ہوگے، تم سوچ رہے ہوگے کہ آپکے بیٹے نے سر نیچا نہیں بلکہ سر بلندی سے سر بلند کیا ہے۔

ہاں! تمہارا خفا ہونا بھی حق بنتا ہے، آخر میں نے ایسا راستہ اختیار کیا ہوا ہے جس میں واپسی کا راستہ نہیں۔ میں اپنے اس عشق میں اتنا بے خبر رہا ہوں کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میرا ایک بوڑھا باپ اور بوڑھی ماں گھر والوں کیساتھ میرا منتظر ہیں۔

میں آپ سب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ لوگوں نے ہمہ وقت مجھے اپنے خیالوں میں یاد رکھا لیکن مجھے معاف کرنا کہ آپ لوگوں کی خواہشات پر پورا اتر نہ سکا، آپ لوگوں کی خواہش تھی کہ میں شادی کرلوں، گھر بسا کر عام سی پرسکون زندگی گذاروں۔

ابا جان مجھے اپنے کم علمی کا آج شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کوئی علمی ادبی مقالہ چاہتے ہوئے بھی آج میں قلمبند نہیں کر پارہا، اپنی سب سے عزیز ترین ہستیوں کے لئے کہیں سے بھی وہ الفاظ نہ لاسکا، جسے سننے کا وہ حقدار ہیں۔

ابا جان اور امی جان، میں ہر شئے سے واقف ہوں کہ آپ لوگ کس طرح سے اپنی زندگی کا گزر بسر کر رہے ہیں لیکن امی جان اور پیارے ابا جان آپ لوگوں کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ہم جو سوچتے ہیں وہ زندگی نہیں ہوتی بلکہ ہمارے ساتھ جو ہوتا ہے وہ زندگی ہوتا ہے۔

ابا جان، کائنات میں ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر ہمیشہ نور ہی نور چمکتا ہے، اور اسکی آنکھوں میں، میں نے ہمیشہ اپنے آپکو دیکھا، الفاظ میں محبت اور دنیا بھر کا سکون پایا، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت و سرزمین کا خوشبو پایا، میں جہاں بھی جاتا ہوں اسکی خوشبو میرے روح میں کئی رنگوں میں سمٹ جاتی ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ دونوں ہونٹوں کے ملائے بغیر لفظ “ماں ادا نہیں ہو سکتا۔

اے ماں! میں ساری زندگی آپ کے نام کرلوں تو پھر بھی آپکا حق ادا نہیں ہوسکتا، حق تو کیا ایک رات کا فرض، بدلہ بھی پورا نہیں ہو سکتا،
دانشور خوب کہتے ہیں کہ ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے، جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکا اور نہ ہی ناپ سکے گا، ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی بھی خزاں نہیں آتی۔

امی جان! آپ میرے لیے جَنّت کا درجہ رکھتی ہیں،لیکن گواڑخانِ زمین جس پہ چھایا ہوا آسمان، گوادَر کا زِر، جسکی لہریں آج تک سربُلند کی گواہی دیتے ہیں، چاغی کا جلا ہوا سینا، شال کا لاثانی موسم، شاپُک کی یادیں، میری زمین کا ہر ایک پتھر، یہ وادیاں، یہ پہاڑ، چمن اور دود ءُ ربیدگ، میرے وطن کا ہر ایک شئے مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز تر ہے۔

ماں، جب بھی ماں یاسمین میرے سامنے آتی ہے تو مجھے مشہور زمانہ سپہ سالار نپولین بونا پارٹ کا ایک تاریخی جملہ یاد آتا ہے کہ ” تم مجھے عظیم مائیں دو میں تمھیں عظیم قوم دوں گا۔”

ماں، آج میں ایک ایساعمل کرنے جا رہا ہوں جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں، ہوسکتا ہے تم، والد صاحب بھائی اور بہنیں میرے اس عمل سے خوش نہ ہوں لیکن میں نے یہ فیصلہ اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے لیا ہے اور میرے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد آپ لوگوں کو فخر کرنا چاہیئے غمگین و آزردہ نہیں ہونا چاہیئے۔

تل مَس تہاری چُٹا اننا نن ولہ برینا

کنا محبت!
گُلی تمہارا “ھَلک” میرے لیئے کائنات سے کم نہیں تھا، مجھے کبھی کبھار یوں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرا جنم صرف تمہارے لیئے ہی ہوا اور تم صرف میرے لیئے ہی بنی ہو، میں نے تم سے زندگی جتنا سیکھا شاید اور کسی سے نہیں۔

گُلی! تمہاری ان کالی زلفوں سے میں اپنے چہرے کو ڈھانپ کر ایک گُمنام سپاہی کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتا تھا اور تمہارے رخسار میں ایسا کھو جانا چاہتا تھا کہ تم سے ہٹ کر کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے، تمہاری بادامی آنکھوں کو دیکھ کر چشم ساغر ہوجانا چاہتا تھا، گُلی جب میں تمہیں مسکراتے ہوئے دیکھتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ پوری کائنات اپنی زیبائی میں تمہارے رخسار کے سائبان پر رشک کر رہا ہے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ تم نے بھی عشق کیا تھا، شاید وہ عشق تمہارا مقدر تھا اور میں تو صرف آپکے نام کا۔

گُلی مجھے یاد ہے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا، تم آواران کے بیگانہ وادیوں میں تھے اور میں سوچنے لگا تھا کہ وادیاں بیگانہ ہیں، راستے “سنسان” ہیں لیکن تم کیوں بیگانے نہیں لگتے۔

آج میری یکطرفہ محبت کو کچھ سال بیت گئے ہیں لیکن آج بھی تم میرے دل میں بسی ہو اور میں تمہیں ہر ساھت و دمان میں یاد کرتا رہوں گا کیونکہ تمہاری ان بجھتی،جلتی،جلتی بجھتی آنکھوں میں نہ جانے فطرت کے کتنے رنگ دیکھے ہیں میں نے اور میں انہی رنگوں میں پورے بلوچستان کا سیر کرتا تھا۔

یہ یقین تھا کہ تم میری محبت ہو لیکن میرا عشق تو کوئی اور تھا، میرا عشق وطن کیلئے کبھی بھی یکطرفہ نہیں تھا بس آخر میں اپنے ٹوٹے پھوٹے شاعری کے ایک مصرعہ کیساتھ تمہیں الوداع کرتا ہوں

عشقِ جدائی کی آتش میرے بدن کو جلا دے یکطرف
طلوع نشان سے تیرے لطف کا وہ آگ بجھا دے یکطرف

کنا سنگتاک!
میرے ہمفکر ساتھیوں! جس فرض کو آپ لوگ نبھا رہے ہیں شاید اسکی اہمیت بیان کرنے کیلئے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں بلکہ کسی کتاب میں بھی نہیں، جب بھی آپ لوگوں کی یاد آتی ہے تو میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ ان تنگ حالات میں، بھوک و پیاس سے لیکر اپنی ذاتی خواہشات تک سب کچھ قربان کرنے والے سچائی کیساتھ دشمن سے دوبدو لڑائی لڑرہے ہو، میرے ساتھیوں آج میں اپنی بقا کا فرض نبھانے جا رہا ہوں، جو ہر ایک قومی سپاہی کا فرض بنتا ہے اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی میرے بندوق کی گولیاں زنگ آلود نہیں ہوں گی۔

لیڈر شپ!
میرے ہمفکر ساتھیوں آپ سے بہت سی امیدیں جڑی ہیں، جس عظیم مقصد کیلئے آپ قربانیاں دے رہے ہو، جنگ لڑ رہے ہو مجھے اس پر فخر ہے لیکن آج ایک طالب علم، ایک دوست، ایک ہمفکر کی حیثیت سے کلام کر رہا ہوں کہ جسطرح جنرل استاد اسلم اور ساتھیوں کی گراں قدر قربانیوں کے بدولت آج جدوجہد ایک نئے رخ کی جانب گامزن ہے، اسے جاری رکھیں۔ اس بات سے بھی میں متفق ہوں کہ منظم ہونے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا اور وقت بھی لگے گا لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میرے ہمفکر ساتھیوں بلوچ قومی طاقت کو ایک کرکے پوری دنیا کو یہ یقین دلائیں گے کہ بلوچ قوم ایک ہے، مقصد ایک ہے اور سب اتحاد اور انضمام کے زریعے یکجاہ ہوکر محاذ کو سنبھالنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔

میرے قوم کے نوجوانو!
جب سے میں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا، دیکھا کہ میرے قوم کے ساتھ بہت کچھ بُرا ہو رہا تھا، آئے دن کچھ انہونے اور انوکھے واقعات سننے کو ملتے، میں وقت و حالات کے ساتھ ساتھ زندگی کے اُتار چڑھاوٗ کو سمجھنے لگا تو پھر سوچا کہ اب ہمیں ظلم کے خلاف ہر طریقے سے تیار ہونا چاہیئے کیونکہ ہمیں اپنی زبان، ننگ و ناموس، عزت اور وطن کی ہر شئے کی حفاظت کیلئے ذہنی حوالے سے تیار ہونا چاہیئے اور ہر ناممکن کو ممکن بنانا چاہیئے کیونکہ جب ارادے پختہ ہوں تو ناممکن کا سوال ہی نہیں بچتا۔

میرے نوجوانوں تحریک میں جو کام بھی آپ کرسکتے ہیں، بس وہی کام کریں یہ ضروری نہیں کہ آپ بندوق لیئے پہاڑوں پر چلیں کیونکہ ہمارے پاس دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے ہزاروں طریقہ کار ہیں، شاعر اپنی شاعری سے،فنکار اپنی فنکاری سے، ہر کوئی اپنے طریقے سے اس حق کو ادا کرسکتا ہے کیونکہ اب عمل کے سوا ہمارے پاس اور کچھ نہیں۔

ہمیں ہر شئے میں زندہ رہنا ہے، آکاش میں، آب و ہوا میں ، منہاج، میر احمد اور میرل کی گیتوں میں، برز کوہی، سفر خان، بابل اور ڈاکٹر جلال کی تحریروں میں، ماہ رنگ، سمی اور مہلب کے مستقبل میں، قاضی کی شاعری میں اور اندھیروں کی روکین “روشنائی” میں، ماں یاسمین کی گواڑگ کے آتار میں، سب کچھ میں بس زندہ رہنا ہے۔

میرے قوم کے نوجوانو! تم میرے بہار تھے اور بہار ہو، کیونکہ بہار کا موسم سب موسموں سے زیادہ خوشگوار ہوتا ہے کوہساروں، کَلگوں، چشموں اور وادیوں میں بہت سے دلفریب نظارے ملتے ہیں، پھول کھلتے ہیں، درخت سرسبز اور شاداب ہوتے ہیں اسلیئے مجھے گُل اور بہار عزیز ہیں اور اس کے بغیر پوری کائنات بھی میرے لیئے ناتمام ہے اور دوسری بات میرے قوم کے نوجوانو بس آخر میں یہ کہوں گا کہ اس جدوجہد کو اپنا سمجھیں کیونکہ سب کچھ آپ لوگوں کے سامنے ہے کہ ہم جنگی حالات سے گزر رہے ہیں، ہم پر ظلم کے قیامت ڈھائے جارہے ہیں، اسکا مقابلہ ہم محض مزاحمت سے کرسکتے ہیں۔

ہماری جنگ اس نام نہاد الحاق کے خلاف ہے اس غلامی اور مظلومیت سے آزادی کیلئے ہے اور ہماری جد وجہد بلوچ قوم کی مکمل آزادی، خودمختاری اور حق خودارادیت،انسان اور انسانیت، لکھنے پڑھنے، شاعری، فن اور فنکار، رنگ و نسل اور برابری کے نظام کیلئے ہے۔

آخر میں سنگت بشیر زیب کے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے کہوں گا کہ جن المناکیوں سے آج بلوچ قوم گزر رہی ہیں وہ کبھی بھی بے ثمر نہیں ہونگے، بس آپ لوگوں کی participation ہونا لازمی ہے، آپ لوگوں کی شمولیت ایک عظیم جذبہ، سوچ، مستقل مزاجی اس جدوجہد کا ایک عظیم کارنامہ ہوگا۔ بقول شیردل غیب “میں تمہیں الوداع نہیں کہوں گا کیونکہ تم میرے وجود کا حصہ ہو”

تل مَس تہاری چُٹا اننا نن ولہ برینا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں