فیاض علی کی جبری گمشدگی پر کوئی ادارہ انصاف فراہم نہیں کررہا – نرگس فیاض

298

جبری گمشدگی کے شکار فیاض علی کی زوجہ نرگس فیاض نے ہفتے کے روز کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سماج میں جہاں انصاف کی فراہمی کیلئے متعین دروازے بند کردیئے گئے ہو، وہاں انصاف تک رسائی کی ساری امیدیں محض صحافت سے جڑجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے کونے کونے سے روزانہ انصاف کے طلبگار کسی وزیر، جج یا پولیس سربراہ کے بجائے کوئٹہ پریس کلب پہنچتے ہیں۔ سب یہ امید لیکر آتے ہیں کہ صحافت جیسے مقدس پیشے سے وابسطہ کوئی سچا صحافی انکے درد کو آواز دیکر ایسے ذمہ داران تک پہچائے گا، جہاں سائل کی نحیف آواز نہیں پہنچ پارہی۔

انہوں نے کہا کہ آج میں اپنا جو مدعا آپ صحافی حضرات کے سامنے پیش کررہا ہوں، یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان کا ہر تیسرا گھر جبری گمشدگی کے اس سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ اب ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جبری گمشدگی جیسے، اس غیر انسانی تسلسل کا ایک شکار میرے شوہر فیاض علی ولد محمد اعظم بھی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ میرے شوہر فیاض علی کو 30 اگست 2021 کی رات 9 بجے کے وقت فقیر آباد جیل روڈ کوئٹہ سے چند نامعلوم افراد ہمارے گھر میں گھس آئے اور میرے شوہر فیاض علی کو تفتیش کے نام پر اپنے ہمراہ یہ کہہ کر لے گئے کہ 2 گھنٹے بعد انہیں واپس بھیج دینگے۔ مذکورہ افراد نے اپنا تعارف پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے طور پر کیا جبکہ ان کے ہمراہ فرنٹیئر کور کے مسلح اہلکار بھی موجود تھے۔

زوجہ فیاض کا کہنا ہے کہ فیاض کو مذکورہ اہلکار اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد ان 6 مہینوں ہمیں ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔ 24 گھنٹے بعد اس حوالے سے ہم نے ایف آئی آر درج کرنا چاہا تو حکام نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا۔ بمشکل 3 مہینے بعد ہماری FIR کاٹی گئی. دوستان متعلقہ حکام مشیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو سمیت کوئی ایسا در، یا دروازہ نہیں چھوڑا جہاں فیاض کی بے گناہی پر فریاد نہ کی ہو. اپوزیشن لیڈران بلوچستان اسمبلی کے ممبران جن جن تک پہنچ سکتے تھے ہم نے ان تک اپنی کمزور آواز پہنچائی مگر ہمارے حصے میں صرف مایوسی آئی-

انہوں نے کہا کہ آج فیاض کی جبری گمشدگی کو 6 مہینے مکمل ہو چکے ہیں. لوگوں کے لیے یہ محض ہندسے ہیں مگر ہماری زندگی ان 6 مہینوں میں قید ہو کر رہ گئی ہے. یہ 6 مہینے اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ میں نے کس طرح گھسیٹے ہیں کسی کو اندازہ نہیں.
فیاض استما کا مریض ہے اور جن دنوں اسے لے گئے اسکی طبیعت ناساز تھی۔ فیاض کیڈٹ کالج جعفرآباد کا طالعلم رہ چکا ہے انجینئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد اس نے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اسے بزنس کا شوق تھا انہی دنوں وہ پراپرٹی کا بزنس شروع کرنے جا رہا تھا. میرے شوہر کی کسی سیاسی و مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا-

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان ہمیں جان و مال کی حفاظت کی یقین دہانی کراتی ہے مگر ہمارے لیے کوئی آئین کوئی قانون کو بروے خاطر نہیں لایا جاتا۔ ایک معصوم بچہ جسے اپنے بابا کی گود میں کھیلنا تھا وہ اس تمام صورتحال سے بے خبر ہے کہ اس کے بابا کو طاقتور لوگ ملکی قانون و آئین کو روندتے ہوئے لے گئے ہیں، فیاض کے انتظار میں آج تک اس معصوم کا نام نہیں رکھا گیا. میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں دنیا میں وہ کونسی ریاست ہے جو اپنے ہی شہریوں کو بغیر جرم کے مہینوں سالوں لاپتہ کریں؟ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے تو پھر ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ کیوں رکھا جا رہا؟

انہوں مزید کہا کہ میں حکام سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کس جرم اور کس قانون کے تحت فیاض کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ فیاض کی اس طرح جبری گمشدگی سے ہمارا گھر پریشانی اور اذیتوں میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گذشتہ 6 مہینوں سے ہم تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگاچکے ہیں اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے، ہمیں احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

اس پریس کانفرنس کے توسط سے حکام بالاء سے گزارش کرتے ہیں کہ اس ناانصافی پر نوٹس لیتے ہوئے فیاض کو بازیاب کرائے اور ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کرکے قانونی تقاضے پورے کیے جائے۔ شکریہ

اس پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے –