عورت آزاد، سماج آزاد ۔ انجنیئر شبیر بلوچ

632

عورت آزاد، سماج آزاد

تحریر: انجنیئر شبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جس سماج میں ہم معاشرتی طور پہ نشونما پارہے ہیں وہاں پہ ہر لمحہ طاقتور اپنی طاقت کا استعمال کرکے کسی بھی مظلوم کی آواز کو دبانے کی خاطر مذہب، سیاست کو ایک ٹول کے طور پہ استعمال کرتاہے اور کربھی رہا ہے۔

بلوچستان کے عوام ان حربوں سے مکمل طور پہ واقفیت رکھتے ہیں کہ ظالم و حاکموں نے کب کس وقت انکے اپنوں کو ملحد یا غدار قرار دیکر شدت پسندوں کے ہاتھوں نقصان پہنچایا اور ان شدت پسندوں کی مکمل پشت پناہی مزہبی ناموں سے ہورہا ہے نہ صرف بلوچستان بلکہ بنگلہ دیش میں بھی اسکی پریکٹس ہوچکی ہے۔گوکہ بلوچ و بنگال مسئلہ تھے الگ الگ اور عورت حقوق بھی الگ مگر مظلوم تو سارے ہیں اور ان پہ ظالم ایک طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔

عورت مارچ یا عورتوں کے حقوق کی بات کریں تو یہاں پہ موجود عورتوں کے استحصال کرنے والے مرد جو خود ظالم ہیں اور عورت جو اس ظالم سماج میں مردوں کے اس غلیظ حرکات میں خوف ڈر اور اپنی عارضی سماجی عزت کی خاطر ظالم مردوں کے ساتھ ہیں انہوں نے بھی یہی طریقہ اپنا کرمظلوم عورتوں کو کمزور سمجھ کے ان سے منطقی دلائل کے حوالے سے بحث و مباحثہ یا انکے قانونی انسانی حقوق دینے دلوانے کے بجائے وہی حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو طاقتور نے ہمیشہ سے مظلوموں کے خلاف استعمال کی ہے۔

اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے اگر عملاً اس ضابطہ حیات پہ تجدید کی حد تک عمل کرتے تو شاید یہاں مظلوموں کی تعداد کم ہوتا یہ ایک الگ بحث ہے اور دین قبول کرنے میں بھی کوئی زبردستی نہیں اس معاملے میں بھی سارے انسان اپنے خیالات کا اظہار اور مزہب چننے کے معاملے میں بھی آزاد ہیں ۔

اس معاملے پر ایک آیت کریمہ بھی ہے۔
“لااکراہ فی الدین ” دین میں کوئی زبردستی نہیں اس آیت کا نزول کا اصل مرکز بھی ایک واقعہ ہے۔
جو حضرت ابن عباس رض کی روایت کے مطابق یہ ہیکہ حصین انصاری رض جو قبیلہ سالم بن عوف سے تعلق رکھتے تھے جب اسلام لائے تو انکے دو بیٹے نصرانی تھے۔شفقت پدری کے پیش نظر وہ یہ چاہتے تھے کہ انکی طرح انکے دو بیٹے بھی اسلام قبول کریں۔ اپنے طریقے سے کافی کوشش کی کہ وہ اسلام قبول کرلیں مگر نہ ہوسکا تو ایک دن حصین انصاری بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت ہوتو میں اپنے بیٹوں کو کچھ ڈرا دھمکا کر اسلام قبول کرنے پہ مجبور کروں ؟ کیونکہ مجھے انکا نصرانی رہنا بہت شاق گزرتا ہے۔اس پر آیت نازل ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ۔اللہ تعالی نے ہدایت و ذلالت دونوں کے راستے واضح کردیئے ہیں۔ دین کے بارے میں کسی کو زبردستی مجبور نہ کیا جائے۔اللہ نے کھلی ہدایت دینے کے بعد لوگوں کو ہدایت دے دیا ہے۔
تفسیر ابن کثیر (311/1),تفسیر مظہری (362/1),
تفسیر المنار ((36/3)۔

اگر عورتوں کے حوالے سے گوکہ ہم مذہب قرآن سے ریفرینس لیں تو
1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا.

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘

القرآن، النساء، 4 : 1۔

2) اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پورا اور برابر جزاء ملے گا۔ ارشادِ ربانی ہے :

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ.

’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘
القرآن، آل عمران، 3 : 195

معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں :

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO
’’(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النور، 24 : 30.

اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔

ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔
هندي، کنز العمال، 5 : 411

اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے :

استفاف رجل ناسا من هذيل فأرسلوا جارية لهم تحطب فأعجبت الضعيف فتبعها فأرادها علي نفسهانا متنعت فعارکها ساعة فانفلتت منه انفلاتة فرمته بحجر ففضت کبده فمات ثم جاء ت إلي أهلها فأخبرتهم فذهب أهلها إلي عمرا فأخبروه فأرسل عمر فوجد أثارهما فقال عمر قتيل الله لا يوري أبدا.

’’ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔‘‘

1. عبدالرزاق، المصنف، 9 : 435
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 166، رقم : 154
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 431، رقم : 27793
4. خلال، السنة، 1 : 166، رقم : 154
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 337
6. ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 257
7. ابن حزم، المحلي، 8 : 25
8. ابن قدامه، المغني، 9 : 152
9. عسقلاني، تلخيص الحبير4 : 86، رقم : 1817
10. انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 332، رقم : 2488

عورت مارچ میں تمام مظلوم عورتیں بھی تو اپنی یہی اخلاقی ،معاشرتی اور جو مزہبی ہیں مزہبی حقوق کی باتیں کررہے تھے ۔ جو مسلمان ہیں انکو یہ باتیں سمجھ جانا چاہیئے کہ جب قرآن حدیث انکو حقوق دے سکتا ہے تو آپ کیوں اتنی زلیل حرکات کرکے مزاہب کو بدنام کرتے ہیں۔

اور جنکا مزاہب کے بغیر بھی اپنے حقوق لینے کی کوشش ہے بھی ان پہ کوئی ممانعت نہیں سارے انسان مذہب کے ساتھ مذہب کے بغیر برابر ہیں اور یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ رحمت اللمسلمین ہونے کے بجائے رحمتاللعالمین ہونے کو ترجیح دیا۔ یہ کائنات چرند پرند حشرات انسان جانور سب کے لیئے بنی ہے جو انسانی حقوق کی پاسداری کررہے ہیں انکا حصول اور جو حقوق کے حصول کی خاطر جہد کر رہے ہیں انکا ساتھ دینا ہر اک انسان پہ انسان ہونے کے ناطے فرض بنتا ہے۔

کہیں کہیں پہ اگر مزاہب نے انسانی آزادی پہ اپنی تجدید شدہ نظریات نہیں لائے ہیں کیا ان پہ سوال اٹھانا بھی جرم ہے؟

سوال اٹھانے والوں کو منطقی دلائل سے مطمئن کریں انکے حقوق کی خاطر انکا ساتھ دیں نہ تو آپ اس آگ کو روک نہیں پائینںگے۔مظلوم جب آواز اٹھاتے ہیں تو پورا قدرت انکے ساتھ ہوتا ہے اور مظلوموں کی آواز جب مثبت عمل بن جائے تو انکو کامیاب ہونے انکی جہد حق کو ہٹانا ناممکن ہوجاتاہے۔ تاریخ سے ثابت ہیکہ کسی بھی ظالم نے مظلوم کی جسمانی طاقت کو گوکہ کسی نہ کسی طرح سے کچل ڈالا ہے مگر مظلوم کے نظریات اسکے عمل کی آواز کائنات کی ہر اک زرہ کے اندر گھس کر اسے اس وقت تک جہد کرنے کیلیئے اکساتا ہے جب تک مظلوم کو اسکے حقوق نہ ملے۔

مگر یہاں کے ریاستی ٹھیکدار شدت پسند ملائوں نے ہمیشہ سے قرآن حدیث اور دیگر کو ظالموں کی طرح مظلوموں کو مزید زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کیلیئے استعمال ہی کیا ہے۔اور جہاں انکی بس نہ چلے ملحد یا غدار قرار دیکر انتقام لیا کرتے ہیں ۔

دنیا میں حقوق کی پاسداری کی خاطر بے شمار جہد موجود ہیں اور ہر اک کا ایک نعرہ رہاہے کہ ظالم کے خلاف بولو عمل کرو جتنا جلدی ہوسکتا ہے جہد کرو تاکہ آپکی نسلیں اس بربادی سے محفوظ ہوں ۔اگر مسلمانوں کی باتیں کریں بھی تو خود فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جسکا مختصراً مفہوم یہ ہے کہ ظلم ،جبر اور ناانصافی کے خلاف ہر ممکن جہد کرو اور اگر سامنے والا طاقتور ہواور مزید آپکو جانی نقصان دے سکتا ہے تو اسکے خلاف علم یعنی قلم استعمال کرو یہ بھی ناممکن ہے تو اسکے خلاف احتجاجاً بولو اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اس عمل کو غلط سمجھ کے دل میں اسکے خلاف رہو۔تو عورتوں نے اپنی تجدیدی حقوق مانگنے کی کوشش کی ہے ہم اتنے پریشان ہیں اگر وہ اپنے حقوق کی خاطر جہد بھی کریں بھی آزاد ہیں اور انکا یہ حق کوئی انسان ان سے نہیں چھین سکتا اور جس نے یہ حق چھیننے کی کوشش کی وہ خود احکام نبوی ص کے انکاری بن جائے گا۔

مظلوم جہاں بھی دنیا کے جس کونے پہ ہوں وہ مظلوم ہیں انکا ساتھ دینا اور انکے جائز حقوق کے حوالے سے ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا،مظلوموں کی حق میں جہد کرنا انسانیت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔اور مظلوموں کی ہر ممکن مدد کرنا سارے انسانیت پہ فرض ہے اور یہی تو دین اسلام اور انسانیت ہے۔

سارے مردوں کو جو مزہبی ہیں یا دوسرے، تجدیدی سوچ رکھ کے نئے انسانی حقوق کی قانون کی پاسداری کرنا چاہیئے اور جن پہ ظلم ہورہا ہے گوکہ جو بھی جیسے بھی جس رنگ نسل ،مزہب سے اسکا انکا تعلق ہو اول تو ساتھ دینا چاہیئے یہی انسانیت کا فریضہ ہے اگر نہیں ہوسکتا کم ازکم انکے اس جہد میں انکو مثبت صلاح مشورہ یا عمل کی جانب ترغیب دینا انسانی فریضہ ہے۔بجائے اسکے کہ اپنے سے جھوٹ وفریب و شدت پسندی کی آڑ میں آکر خود ہی احکام الہی کے انکار بن کے اپنے سے کسی کو کافر کسی کو ملحد اور کسی کو غدار قرار دے دیں۔

ایسی حرکات سے مظلوموں کے دلوں میں مزید نفرت بڑھے گی اور یہی نفرت ایک نہ ایک دن مظلوموں کی حق میں انقلاب برپا ضرور کرےگی۔شکر کریں کہ عورت اب تک صلح مارچ اور امن سے اپنی آزادی کی بات کررہے ہیں جب عورتوں نے عملاً پورے سال اس مظلومیت کے خلاف آواز اٹھائ تو نہ ظالم مرد رہیںگے نہ انکے منفی ہتھکنڈے نہ یہ معاشرہ پرسکون رہ سکے گا۔

دنیا میں کوئی کمزور نہیں اور کوئی انسان کسی سے کسی بھی حوالے سے کم نہیں۔سارے انسان برابر ہیں کسی کو کسی کے قوم رنگ نسل پہ کوئ ترجیع نہیں اور ہر کوئ اپنے جائز حقوق کی خاطر کسی بھی مشکل قدم اٹھانے سے باز نہیں آتا اور ہر کسی انسان کو شخصی معاشرتی آزادی اور اظہار رائے کا مکمل حق حاصل ہے ۔

بجائے ہم عورتوں کو اپنے شدت پسندانہ زہنیت کا غلام بنائیں یا اسی سوچ کی بنیاد پہ انکو ملحد قرار دینے کی کوششوں میں لگے رہیں ہمیں اپنے عورتوں کے تمام تر تجدیدی حقوق میں انکا ساتھ دینا چاہیٙے بلکہ انکا طاقت بن کے ایک طاقت بن جاناہے اور وہی طاقت ایک مظبوط طاقت بنکے انسانیت کی امن کی خاطر کام کرے۔اور اسی مضبوط تحریک کے بدولت انسانی آزادی کی تحریکوں میں بھی عورتوں سے بھرپور مدد لیجاسکتی ہے۔عورتوں کو شمار کیئے بغیر نہ کوئی جدوجہد کامیاب ہوسکتا ہے نہ کوئی تحریک نہ کہ انقلاب۔

عورت مرد برابر انسان ہیں ۔جنسی تفریق کے بنیاد پہ استحصال،قبائلی و شدت پسند نظریات کے بنا پہ عورت کی تزلیل کی وجہ سے جو نقصان بلوچ نے جتنا اٹھایا ہے اتنا کسی بھی قوم نے نہیں اٹھایاہوگا۔
آئو یہی وقت ہے اپنے عورتوں کو مکمل طور پہ انسانی حوالے سے قبول کرکے اپنے تحریک کا حصہ بنائیں ۔یا انہیں موقع دیں وہ گھر میں اسکول کالج یونیورسٹی سیاست، جنگ سب میں ہمارے ہم کوپہ رہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں