سندھ پوجا کے لیے کب روئے گا؟ ۔ محمدخان داؤد

311

سندھ پوجا کے لیے کب روئے گا؟

تحریر: محمدخان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ گولی بس پوجا کے نازک جسم سے آر پار نہیں ہوئی
وہ گولی پوجا کی جسم سے ہو تے، پوجا کے ماں کے جسم میں پیوست ہوگئی
ماں کے جسم سے ہو تے، روہڑی کو گھائل کر گئی
روہڑی کے جسم سے ہو تے ہوئے لطیف کے جسم کو گھائل کر گئی
لطیف کے جسم سے ہوکر اس سندھ کے جسم میں پیوست ہو گئی
جس سندھ میں ہر روز شام غریباں ہے،صبح ماتماں ہے۔

تو ہم یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ ایک گولی بس پوجا کو گھائل کر گئی؟جب کہ اس ایک گولی سے سندھ کا دامن لہو لہو ہے۔لطیف کا صحن لہو لہو ہے، ماں کی چادر لہو لہو ہے،اور روہڑی کا دامن گھائل ہے!
اس ایک گولی نے نہ بس لطیف کو گھائل کیا پر لطیف کے فقیر بھی آہ بکا کر رہے ہیں اور وہ روہڑی میں چلتی گولی شاہ جو رسالو کو بھی لہو لہو کر گئی ہے،اس رسالے میں سسئی سے لیکر ماروی تک سب سورمیاں گھائل ہیں،اگر شاہ جو رسالو کی سورمیاں گھائل نہیں بھی تو وہ سورمی تو گھائل ہوکر ایسے دھرتی پر پڑی ہو ئی ہے جس کے لیے فیض نے لکھا تھا کہ
”شوپین کا نغمہ بجتا ہے
ایک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں
آکاش کی نیلی راہوں میں
اک چیل زور سے جھپٹا ہے
شوپین کا نغمہ بجتا ہے!“
وہ سکھی گھائل ہوکر دھرتی پہ ایسے پڑی ہے جیسے سندھ میں کونجیں گھائل ہوکر گرتی ہیں
وہ بھی تو کونج تھی،پیاری،پیاری سی
معصوم معصوم سی!
وہ روہڑی کنارے دھرتی پہ ایسے پڑی ہوئی تھی جیسے معصوم بچیاں ماؤں سے بغلگیر ہو تی ہیں
کیا پوجا دھرتی ماں سے بغلگیر ہو رہی تھی؟
کیا ہماری بچیاں جب دھرتی سے بغلگیر ہوں جب ان کے سینوں کو بندوق سے گھائل کیا جائے
اور وہ ایک درد بن جائیں،ایک چیخ بن جائیں،ایک آہ بن جائیں،ایک کراہ بن جائیں
وہ بھی ایک ایسی ہی کونج تھی
نہ جس کی دھرتی تھی
نہ جس کا وطن تھا
وہ وطن میں بے وطن تھی
وہ اداس لاش تھی
وہ بے کفن تھی
وہ جو ساز تھی،سرور تھی،لطیف کا رہ جانے والا سُر تھی،لطیف کی سورمی تھی،لطیف سے رہ جانے والا آخری بیت تھی،وائی تھی،وہ سندھ جائی تھی،پر پھر بھی گھائل ہوئی،ایسا نہیں کہ اگر وہ فاطمہ ہو تی تو یوں گھائل نہ ہو تی،وہ فاطمہ ہو تی تو جب بھی سندھ دھرتی پہ ماری جاتی سندھ پہ واری جاتی،پر ایسا ضرور ہوتا کہ وہ پوجا کماری کے بجائے اگر فاطمہ ہو تی تو قانون ضرور حرکت میں آتا پر پوجا کماری کے نام پر وہ قانون حرکت میں نہیں آتا جس قانون کو جگانے کے لیے کئی سالوں سے اُم رباب ننگے پاؤں سندھ میں گھوم رہی ہے!
وہ دھنک تھی،وہ دھنک رنگ تھی،وہ سب رنگ تھی،وہ سب رنگ سانول تھی،وہ سندھ تھی
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی ہاتھ آگے بڑھ کر اس کی مانگ میں میں سندور بھرتے
پر یہ نہ ہوا پر وہ ہوا جس کا سندھ سوچ بھی نہیں سکتی
سوچنا کیا پر سندھ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،سہا اور برداشت کیے
کہ وحشی ہاتھوں نے آگے بڑھ کر سندھ جیسی پوجا کماری کے سینے کو گھائل کیا اور وہ ہرنی جیسی،ڈیل جیسی،مورنی جیسی وہی ایک چیخ بن گئی
اور کوئی بھی مور ایسا نہ تھا جو اس ڈیل کے یوں مرجانے پر روئے
کیا ہمیشہ موروں کے مر جانے پر بس ڈیلیں روئیں؟
ڈیل کے مر جانے پر مور کب روئیں گے؟
کیا سندھ کے شاعر بس ایسے شعر لکھتے رہیں گے
”ویو وسکارے میں مور مری
تھی کیڈیوں دانھوں ڈیل کرے!“
جس دن ڈیلوں کے مر جانے پر مور روئیں گے اور شاعر بھی اپنے شعروں میں موروں کو رُلائیں گے
وہ دن سندھ میں تبدیلی کا دن ہوگا
اور وہ دن ابھی بہت دور ہے
بہت دور!!
ہم کشمیر کے بچوں کو روتے ہیں،فلسطین کے بچوں کو روتے ہیں
پر ہم سندھ کی بیٹوں پر کب روئیں گے
جن بیٹوں پر ننگی وحشت مسلط کی گئی ہے اور وہ وحشت انہیں جینے نہیں دیتی
یا تو انہیں ان کا مذہب چھین لیتی ہے یا ان کا جیون!
ہم سندھ کی بیٹوں پر کب روئیں گے
ہم آرتی کے لیے کب روئیں گے؟
ہم مدھو کے لیے کب روئیں گے؟
ہم شانتی کے لیے کب روئیں گے؟
ہم دیپیکا کے لیے کب روئیں گے؟
ہم روہڑی،لطیف کے سُروں جیسی،وائی جیسی سندھ کی پوجا کماری کے لیے کب روئیں گے؟
اور جب ہم سندھ کی ان بیٹوں کے روئیں گے یہی تبدیلی کا دن ہوگا
اور نہیں معلوم اس دن کا سویرا سندھ میں کب طلوع ہوگا
جب تک یہ دن سندھ میں طلوع ہو جس دن سندھ آرتی،مادھو،شانتی اور پوجا کماری کے لیے روئے آئیں ہم پوجا کے لیے روئیں،مندر میں پوجا کے لیے بھجن گائیں،ساز چھیڑیں،مندر میں گھنٹا بجائیں
اس قبر پر چلیں جس قبر میں کونج جیسی گھائل پوجا کو دفن کر دیا گیا
جس قبر پر اب منوں مٹی اور کچھ اگر بتیوں کے کچھ نہیں
جس قبر میں ہنستی کھیلتی پوجا اپنے سینے پر بندوق کا گھاؤ سہہ کر دفن ہو گئی
مقدس اوراقوں جیسی پوجا
رنگوں جیسی پوجا
پاک پویتر پوجا
عبادت کے پانی جیسی پوجا
سحر جیسی پوجا
اُمید جیسی پوجا
بھجنوں جیسی پوجا
ھو کی صدا جیسی پوجا
چلو اس ماں کے پاس چلیں جس کا نام تو عائیشہ نہیں پر اس کے سینے میں بھی مسلو جیسا دل تھا
جو اب اداس بہت ہو
وہ ماں جو اپنی بیٹی کی قبر پر بیٹھ کر تنہا رو تی ہے
اور نما شام گھر لوٹ آتی ہے
وہ اداس دل سے سندھ سے پوچھتی ہے
میں کون ہوں؟
ہندو؟
یا سندھی؟
جب وہ ماں پوجا کی قبر سے گھر لوٹ رہی ہو تی ہے
تو سوچتی ہے
”زخم ہرے
پھول سرخ
نیلا آسماں
جدائی زرد
دل خون رنگ
شام،میں،سندھ اور موت“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں