زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے عالمی ادارے کردار ادا کریں – بی ایس او آزاد

279

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہونے اور اب تک انہیں منظر عام پر نہ لانے پر اظہار تشویش اور عالمی اداروں کے کردار پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین زاہد ایک سیاسی اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے لیڈر ہیں جنہیں سیاسی اور قومی جدوجہد کی پاداش میں گزشتہ آٹھ سالوں سے زندان میں رکھا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے زاہد بلوچ بطور ایک بلوچ سیاسی رہنماء دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں مگر اُن کی اس طرح گمشدگی اور منظر عام سے غائب ہونے پر عالمی اداروں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی بلوچستان میں سیاسی آوازوں کو دبانے کی کوششوں کاحصہ ہے اور اس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ پرامن بلوچ طلباء کو نشانہ بنایا جا رہا ہےجن سے ریاست خائف ہے۔ اصل میں ریاست طالب علموں پر نہیں بلکہ بلوچ شعور پر حملہ آور ہے اور اسے ختم کرنےکیلئے ریاست باشعور بلوچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قومی آزادی کی تحریکیں طاقت کے زور پر دبائے نہیں جاسکتے بلکہ مزید توانائی اختیار کرتے ہوئے اپنے منزل مقصود کی طرف رواںدواں ہوجاتی ہیں۔

ترجمان نےکہا کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 8 سال کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن ان کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا نہ ہی انکو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیاہے اور نہ ہی خاندان اور تنظیم کو زاہد بلوچ کی خیریت حوالے سے کوئی خبر دی گئی ہے جو صریحاً انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔ چیرمین زاہدبلوچ پرامن سیاسی جدوجہد کے حامی تھے جنہوں نے بلوچ قومی غلامی کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی کی اورہمیشہ بلوچ طالب علموں کو پر امن سیاسی جدوجہد کا درس دیتے رہے لیکن پر امن سیاسی جدوجہد سے خائفریاست نے زاہد بلوچ کو 18 مارچ 2014 کو تنظیم کے سابقہ چئیرپرسن لمہ ء وطن بانک کریمہ بلوچ اور دیگر ذمہ دارانکے سامنے سے کوئٹہ سے جبری اغوا کرکے لاپتہ کیا جن کا آج تک کچھ پتہ نہیں۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کےخلاف تنظیم نے مقامی اور عالمی سطح پر کئی منظم احتجاج ریکارڈ کرائے۔ ریلی، مظاہرے ،پریس کانفرنس کے ذریعےعالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی جدوجہد کی۔

ترجمان نے کہا کہ تنظیم کے سابقہ مرکزی کمیٹی ممبر لطیف جوہر بلوچ کو کراچی میں تادم بھوک ہڑتالی کیمپ میں بٹھایا گیا اور دیگر آزادی پسند تنظیموں کی مدد سے عالمی سطح پر بھرپور احتجاج کی گئی، لیکن کوئی خاص نتیجہ بر آمد نہ ہوسکا جو انسانی حقوق کے اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ بی ایس او آزاد جیسے پر امن طلبہ تنظیم پر پابندی اور طالب علم لیڈروں سمیت کارکنان پر ریاستی کریک ڈاؤن بلوچستان میں بلوچ طلباء سیاست پر قدغن لگانے کا واضح ثبوت ہے جس پر عالمی اداروں کی پر اسرار خاموشی ایک معمہ ہے جس کا حل ہونا انسانیت کی بقاء اور دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف ایک واضح موقف اپنا کر ریاست پر دباؤ ڈالیں اور بلوچ سیاسی اسیران کی بازیابی کے لئےاقدامات اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے جبکہ زاہد بلوچ کی جبریگمشدگی کو 8 سال مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر #SaveZahidBaloch کے ہیش ٹیگ سے ایک مہم بھی چلائی جائے گی۔ جس میں تمام بلوچ سیاسی پارٹیوں ، تنظیموں ،انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا کارکنان سے اپیل کی جاتی ہیں کہ وہ اس آگاہی مہم میں شرکت کرکے انسان دوستی کا ثبوت دیں۔