ہر وہ انسان جو معاشرے کے معاشی، سیاسی، نفسیاتی ضرورتوں کی ترجمانی کرتا ہے اس کو دانشور کہتے ہیں۔ دانشور سماج کے ہر سمت کو بغور مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ کرتا ہے۔ وہ معاشرتی مسائل پر لکھتا رہتا ہے۔انقلابی دانشور ہمیشہ ریاست اور حکومت کے مصنوعی پالیسیوں کو قوم کے سامنے آشکار کرنے کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہے۔ وہ اپنے لوگوں کے قومی ضرورت کو مد نظر رکھ کر انکو بہتر سے بہتر گائیڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے.
انقلابی دانشور اپنے معاشرہ اور تاریخ کے ارتقائی عمل سے نشونما پاتا ہے۔ اسکو اپنے علاقے کے سیاسی، سماجی اور قومی دشوار حالات اس قدر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے حالات زندگی، سماج کے فرسودہ روایات اور ریاست کا استحصالی پالسی پر غور و فکر کرنا اور سامراجی پوشیدہ پالیسیوں کو عوام کے سامنے نمایاں کرتا ہے۔ سامراجی پالیسیوں کو بہادری کے ساتھ بیان کرنا کوئی شوق یا جذباتی کام نہیں ہے، بلکہ انقلابی دانشور اپنی جان کی بازی لگا کر یہ عمل کرتا ہے۔
انقلابی دانشور کو دانشور ہونے سے اس کو سیاسی، سماجی، مذہبی، نفسیاتی اور جذباتی صورت میں آزاد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک وہ شعوری طور پر آزاد اور خودمختار نہیں ہوتا ہے، وہ کبھی بھی نیا تحقیق و تخلیق نہیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ ایک غلام انسان کبھی بھی قومی دانشور نہیں بن سکتا ہے۔
دانشوری ایک شوق نہیں ہے کہ ہر کوئی جب چاہے دانشور ہوسکتا ہے۔ بلکہ دانشوری ایک بڑی ذمہ داری ہے خاص کر غلامانہ سماج میں لکھاری ہونا، مظلوم اور محروم لوگوں کی رہنمائی کرنے کا مطلب شعوری صورت میں اپنی موت کا چناؤ کرنا ہے۔ اس لیے دانشور کو دانشوری سے پہلے اپنی زاتی جذبات اور خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اکثر و بیشتر اس کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ جسمانی موت اسکے نظریاتی عزائم اور شعوریافتہ سوچ کو شکست نہیں دے سکتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں سچ کہنے پر دانشوروں کو ہمیشہ جیل، جلا وطنی، ٹارچر سیل، عقوبت خانے یا مسخ شدہ کے تحفے ملے ہیں۔ کیونکہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ریاست اپنی جابر اور ظالم پالیسیوں کو کبھی بھی غلطی سے نمایاں کرنے نہیں دیتا ہے۔ اگر عوام کو ریاست کی حقیقت معلوم ہوگا پھر ریاست کے لیے معصوم لوگوں کا استحصال ناممکن ہوسکتی ہے، اسلیے ریاست دانشور طبقہ پد اس حد تک ظلم و جبر کرتا ہے کہ وہ اپنی نظریاتی اور قلمی سفر چھوڑ دیں۔
انقلابی دانشور ریاستی ڈھانچے status quo کے باہر ہوتا ہے۔ وہ سرکار سے اپنی علم اور دانش کا عوض نہیں لیتے اور خاموش نہیں ہوتا ہے۔ اپنے آپکو کچھ مراعات اور مفادات کے لیے سرکار کے پاس نہیں بیچتا ہے۔ بلکہ وہ ریاست کے ہر قوم دشمن پالیسی کا کھلا مخالفت کرتا ہے۔ دانشور اپنی زاتی شخصیت سے بالاتر قومی ترقی آذادی کو زیادہ فوقیت دیتا ہے۔ وہ بڑا نڈر اور بہادر قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زاتی خواہشات سے بالاتر قومی مفادات اور انسانی اقدار کے دائرے میں سوچتے ہیں۔
انقلابی دانشور معاشرے اور قوم کا ضمیر ہوتا ہے۔ ضمیر: ہمیشہ حق کو حق اور سچ کو سچ کہتا ہے۔ معاشرہ کے تعمیراتی عمل کے سخت ترین حالات کے بیچ میں وہ اپنے پیارے لوگوں کی ہر موضوع اور ہر لمحات میں دیانتداری اور مخلصی کے ساتھ رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ انقلابی دانشور اپنے قومی حقوق اور اخلاقی اصولوں پر کبھی بھی کسی بھی صورت میں سمجھوتا نہیں کرتا ہے۔
“مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے”
احمد فراز
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں