بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل آسلام آباد کے رہنماوں نے آج اسلام پریس کلب میں پنجاپ میں زیر تعلیم بلوچ طالب علموں کو فورسز و دیگر سیکورٹی فورسز کی جانب ہراساں کرنے اور ان کے رویہ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلو چستان اس ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں کی عوام مختلف قسم کے معاشی اور انتظامی مسائل سے دو چار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں تعلیمی اداروں کی کمی اور یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی اداروں کے احاطوں سے طلباء کے لاپتہ ہونے اور بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں سال 2019 میں پیش آنے والے ہراسمنٹ کیمروں کے کیسز سامنے آنے کے بعد طلباء خود کو وہاں پہ غیر محفوظ محسوس کرنے لگے۔ جس کے سبب سالانہ سینکڑوں کی تعداد میں طلباء علم کے حصول کیلئے اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جن حالات سے تنگ آکر ان طلباء نے اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا تھا انہی حالات کا سامنا اب بلوچ طلباء کو یہاں یہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ مہینے لاہور کے تعلیمی اداروں میں زیر تعليم چار بلوچ طالبعلموں کو رات گئے ان کے ہاسٹلز سے بغیر کسی FIR کے گرفتار کرکے حراساں کیا گیا۔ جنہیں چند دن غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھنے کے بعد بازیاب کیا گیا۔ رواں مہینے گجرات یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلوچ اور پشتون طلباء کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن(HEC) کے ایک ٹیم سے ملانے کے بہانے بلایا گیا۔ ٹیم کے ساتھ ملنے والے طلباء کے موبائل فونز لیکر ان کے میسیجنگ ایپس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کئے گئے، ساتھ ہی ان طلباء سے کچھ غیر متعلقہ سوالات پوچھ کر انہیں ہراساں کیا گیا، جو کہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ طلباء کے ساتھ ہراسمنٹ کا ایک اہم واقعہ حال ہی میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فزکس کے طالبعلم حفیظ بلوچ کے ساتھ پیش آیا۔ حفیظ بلوچ ایک ایم-فل اسکالر ہیں جنکا تعلق بلوچستان کے دور افتادہ علاقے خضدار کے گاؤں باغبانہ سے ہے۔ انہیں گزشتہ چند مہینوں سے میجر مرتضیٰ نامی ایک شخص کی طرف سے فون کالز پر مسلسل دھمکیاں دی گئیں اور ملنے کا کہا گیا۔ حفیظ بلوچ چند ذاتی مصروفیات کی وجہ سے میجر مرتضیٰ سے نہیں مل سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حفیظ بلوچ جو چٹھیاں گزارنے اپنے گھر گئے تھے انہیں 8 فروری 2022ء کو خضدار سے ایک نجی اکیڈمی “دی اسٹوڈنٹس ان اکیڈمی “ سے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبراً لاپتہ کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ میجر مرتضیٰ نامی شخص حفیظ بلوچ کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کیلئے قائدا عظم یونیورسٹی اسلام آباد تک آئے تھے اور انہوں نے ایک ریسرچ کے بہانے یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی پروفائلنگ بھی کی تھی، جس کے گواہ اور ثبوت موجود ہیں۔
پریس کانفرنس میں ان لوگوں کا کہنا تھا کہ حفيظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کی جانب سے 13 فروری کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ ریکارڈ کرایا گیا۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اندر تین پیس واک کئے گئے اور تین روزہ احتجاجی کیمپ بھی لگائی گئی۔ اس تمام صورتحال کے باوجود نہ حفيظ بلوچ بازیاب ہوئے اور نہ ہی یو نیورسٹی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی جانب سے ہمیں کوئی رسپانس دی گی۔ حفیظ بلوچ کو بازیاب کرنا تو دور گزشتہ دنوں 26 فروری کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں زیر تعلیم ایک اور بلوچ طالبعلم دلیپ بلوچ کو رکنی چیک پوسٹ ضلع بارکھان سے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پہ لاپتہ کیا گیا، جو کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے انگلش کے طالبعلم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکومتِ وقت سمیت قائداعظم یو نیورسٹی اسلام آباد کے انتظامیہ، ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اور دیگر تمام متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حفیظ بلوچ اور دلیپ بلوچ کی بحفاظت بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کے ساتھ پیش آنے والے ہراسمنٹ کے واقعات کا نوٹس لیا جائے۔ اور ایسے تمام واقعات کی روک تھام کی جائے جن سے بلوچ طلباء خود کو اسلام آباد و پنجاب کے تعلیمی اداروں میں غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔