جہاں جہاں اس کے لہو زدہ پیر پڑ رہے ہیں – محمد خان داؤد

350

جہاں جہاں اس کے لہو زدہ پیر پڑ رہے ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ایاز نے دیس کی محبت میں آکر لکھا تھا
”اساں محبت کئی آ بھیا
تھیا،تھیا،تھیا تھیا۔۔۔۔!“
اس نے بھی دیس سے محبت کی ہے اور اس کا وجود دیس کی محبت میں تھرتھرا رہا ہے
وہ دیس کی محبت میں پہاڑوں سے ایسے اُترا جیسے بہتا پانی پہاڑوں سے اُترتا ہے
وہ دیس پر بارش کی طرح برستا،کہیں رُکا،کہیں ٹہرا،پھر چلا
اس کے پیروں کے نشاں پتھروں پر ایسے ثبت ہیں جیسے مسافر سسئی کے
وہ بلوچ دیس کا پنہوں بھی ہے اور سسئی بھی ہے
وہ سسئی بن کر پنہوں کو تلاش رہا ہے اور پنہوں بن کر سسئی کو!
اس کے پیروں کا لہو برف کی مانند بلوچ دھرتی کے پتھروں پر جم کر ٹہر گیا ہے
اب جو بھی ان راستوں سے گزرے گا تو وہ دیکھ پائے کہ وہ نشاں جو اس کے پیروں کے ہیں
اس کے پیر آبلہ پا ہیں اور راہ میں آنے والے پتھر لہو لہو
ایک وقت آئے گا وہ سرخ رو پتھر گلابوں کی ماند کھل اُٹھیں گے،اس کے پیر جوتوں سے عاری اور درد سے پُر تھے۔وہ پیر دھرتی پر دھرتا اور آگے پتھر اس کے پیر میں ایسے چُب جاتے تھے جیسے مسافر یسوع کے!
جیسے مسافر سسئی کے
”ڈونگر مون سان روئے
کڈھی پار پنہوں جا!“
”پتھروں میرے ساتھ چل نہیں سکتے
تو پنہوں کے لیے رو تو سکتے ہو
تو میرے ساتھ روؤؤؤؤ!“
پر وہ تو آپ ہی دھرتی
آپ ہی پنہوں
آپ کی سسئی
آپ کی درد
آپ کی سفر
آپ ہی لہو لہو
تو کس سے کہے کہ میرے ساتھ رو؟
تو جیسے ہی وہ سفر میں پیر آگے بڑھاتا،تو پتھر اس کے پیر میں درد بن کر سمو جاتے اور وہ لحو لحو پتھر بہت پیچھے چھوڑ کر آگے چل پڑتا،دردیلے پیر،اکیلے پیر،تنہا پیر،مسافر پیر،لحو لحو پیر!
وہ جو تے کیوں کر پہنتا؟اسے تو لطیف کے قفیر تمر جیسا کوئی تمر فقیر بھی میسر نہیں جب وہ تھک کر اپنے جوتے اتارتا کچھ دیر سستاتا اور تمر فقیر جیسے فقیر کو کہتا میرے جوتے تو اُٹھاؤ اور تمر فقیر جیسا تمر جب اس کے جوتے اُٹھاتا تو اس سے ایک آہ نکل جاتی اور وہ کہتا سائیں ایسے بھا ری جوتے تو وہ جواب دیتا ان جوتوں میں سفر کا درد بھی تو ہے!
تو وہ تمام تر درد کو اپنے پیروں میں سمائے چلا آ رہا ہے،پہاڑوں سے،ڈھلوانوں سے،شاہراؤں سے،ندی نالوں سے،کچے پکے راستوں سے،پتھرو ں سے پہاڑوں کی چوٹیوں سے،ویرانوں سے،اداس لاوارث قبروں کے درمیاں سے،نخلساتوں سے،چشموں سے،آبشاروں سے،بلوچ دھرتی کے دکھوں کے درمیاں سے!
وہ چلا آ رہا ہے
کیوں؟
اس لیے کہ اس دیس سے محبت ہے ایسی ہی محبت جیسی محبت بُلیا کو اپنی دھرتی سے تھی جیسی محبت لطیف کو اپنی دھرتی سے تھی جیسی محبت بالاچ کو اپنی دھرتی سے تھی،جیسی محبت سرمچاروں کو اپنی دھرتی سے ہے،جیسے محبت دھرتی کے عاشقوں کو زمیں سے ہے جس کی لے میں آکر وہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ
”اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!“
جیسی محبت ایاز کو دھرتی سے تھی جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”جتے لُک لگے
جتے اک تپن
سو دیس مسافر منھنجو ڑے!“
جس دھرتی کی محبت آکر ایاز نے لکھا کہ
”اساں محبت کئی ہے بھیا
تھیا،تھیا،تھیا،تھیا۔۔۔!!!“
ایاز کو تو بس دیس سے محبت تھی پر اس نے تو دیس کے درد دیکھے ہیں۔روتی مائیں دیکھی ہیں۔مسافر بیٹیاں دیکھی ہیں۔اداس بہنیں دیکھی ہیں۔معلوم،نامعلوم لاشے دیکھی ہیں،مسخ شدہ چہرے دیکھے ہیں،نامعلوم لاشیں دیکھی ہیں،طویل انتظار دیکھا ہے
دشت دیکھا ہے
دشت کا صحرہ دیکھا ہے
دشت کی لاوراث قبریں دیکھی ہیں
قبروں کا بار دیکھا ہے
اداس منتظر مائیں دیکھی ہیں
رو تی آنکھیں دیکھی ہیں
منتظر آنکھیں دیکھی ہیں
اور پھر ان منتظر ماؤں کے جنازے دیکھے ہیں
تو اسے دیس سے ایسی محبت نہیں جس کے لیے ایسے الفاظ لکھے جائیں کہ
”اساں محبت کئی آ بھیا
تھیا تھیا تھیا تھیا۔۔۔!!“
پر اسے تو دیس سے درد جیسی محبت ہے جس کے لیے ایسے الفاظ لکھے جاسکتے ہیں کہ
”جتے لُک لگے
جتے اک تپن
سو دیس مسافر منھنجو ڑے!!!“
وہ اپنے دیس میں مسافر ہے بس مسافر نہیں پر ایسا مسافر جو درد کو لیے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اتر رہا ہے اور نوک دار پتھروں پر لحو سی ایسی تحریر لکھا ہوا آ رہا ہے جسے دردِ دل والے ہی پڑھ سکتے ہیں
اور اس مسافر کے لبوں پر ایسی شکایت بھی نہیں جو بائیل میں یسوع کے نام سے درج ہے کہ
”اے باپ
یہ بھاری صلیب لیے چل رہا ہوں
میں مصلوب ہوں
اور ننگے پیر کے اونگھوٹے اور انگلی کے درمیاں
نوک دار پتھر گھڑ گیا ہے
چل نہیں سکتا
اگر نکال سکتا ہے تو اسے ہی نکال دے!“
پر سنگت گلزار دوست کے لبوں پر ایسی بھی شکایت نہیں
وہ بس دردِ دل لیے زخمی پیروں کو لیے آ رہا ہے
غلام دھرتی مسکرا رہی ہے
ہاں دھرتی مسکرا رہی ہے کہ جب سب خاموش ہیں اور اپنے گھروں تک محدود ہیں.
جب بھی کوئی ہے جو میرے درد لیے سفر میں ہے
اے اہلیانِ بلوچستان تم بھلے اس سے دور رہو
پر جب وہ اس کا سفر تمام ہوگا اور وہ اس احتجاج پر بیٹھے گا
تو دھرتی آگے بڑھ کر اس کے پیر چوم لے گی
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دھرتی کبھی عالموں کی نہیں ہوئی
دھرتی عاشقوں کی ہوئی ہے
وہ عاشق جو دھرتی کے عشق میں فنا ہو کر دھرتی ماں میں سما گئے
اور وہ عاشق جو دھرتی کے عشق میں دھرتی پر موجود ہیں
جہاں جہاں اس کے لحو زدہ پیر پڑ رہے ہیں
مٹی گا رہی ہے
”مٹی ماتھے لاھیاں مان“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں