بلوچ جنگ کے متعلق کچھ سرگوشیاں ۔ سیف اللہ

900

بلوچ جنگ کے متعلق کچھ سرگوشیاں

تحریر: سیف اللہ

دی بلوچستان پوسٹ

آج سے دو دہائی قبل جب بی ایل اے نے اپنا پہلا حملہ پاکستانی فوج پر کیا تو ان دنوں میں جنگی حکمت عملی بلوچ کیلئے نوزائیدہ تھی۔ جنگ کو آگے بڑے سخت حالات سے گزر کر اسے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل کرنا تھا ۔ جنگ کی ابتدائی دنوں میں، یقیناً ہر کارکن کو بغیر جنگی تجربہ کے کام کرنا پڑتا تھا- اس وقت جنگی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، انہیں بغیر خاص جنگی ٹریننگ کے اپنا جنگ لڑنا تھا۔ سرمچاروں کو اپنے خوف پر قابو پانے کے لئے زیادہ محنت کرنا پڑتا اور اس جنگ کو کامیابی کے ساتھ اگلے نسل تک منتقل کرنا تھا- آج اگر ہم دیکھیں، الحمداللہ! قوم کی قربانیوں سے تحریک آزادی کامیابی سے اپنے مقصد کی طرف گامزن ہے –

آج سے بیس سال پہلے جو بچے دو یا تین سال کے عمر میں تھے ابھی وہ جوانی کے دامن میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی آزادی کیلئے توانا بخش، بہادر، بے خوف، اور نڈر سیاسی یا جنگی سپاہی بننے جارہے ہیں کیونکہ یہ لوگ گولیوں، توپ اور بموں کی آواز تلے بڑھتے رہے ہیں۔ انہوں نے آنکھ کھولتے ہی مسخ شدہ لاشیں، خون سے رنگے پہاڑ، غیر انسانی تشدد، اغواء، دشمن کے سخت رویے، جلتے گھر، ماؤں بہنوں کی روڈوں پر آہ و زار اور کئی ایسی مظالم، اذیت اور سختیوں نے یقیناً انہیں مزید پختہ اور مضبوط بنائی ہیں ۔ خاص کر دشمن کی بار بار کی وحشیانہ مظالم نے لوگوں کے دلوں سے دشمن کے ڈر کو ایک حد تک ختم کردیا ہے ۔

ان سب کے علاوہ اگر ہم غور سے جائزہ لیں تو دشمن یہ سب بھی محسوس کر رہا تھا اس لئے اس نے یہ لائحہ عمل اپنایا کہ کیسے جنگ کو شہروں سے نکال کر پہاڑوں تک محدود کریں۔ اس لئے، دشمن نے ایسی سنسان جگہوں میں اپنی کیمپ یا چیک پوسٹیں بنائی ہیں جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ گوکہ گوریلا جنگ میں یہ ایک حد تک کامیابی ہے کہ گوریلا دشمن کو اپنے وار زون میں لائے لیکن شہر کو جنگی صداؤں سے خاموش رکھنا بھی تحریک کیلئے لانگ ٹرم میں نقصان دہ ثابت ہوگا۔ دشمن تو چاہتا ہے کہ سرمچار اس سے صرف پہاڑوں میں کشمکش میں رہیں، وہ شہر کی طرف آ نہ سکیں یا دھیان دے نہ سکیں۔ اس حکمت عملی سے دشمن یہ فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں کرتا ہے (بلوچستان کی آبادی کا زیادہ تر لوگ دیہاتوں کی شکل میں پہاڑوں میں آباد ہیں) کہ پہاڑی علاقوں کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں پر جنگی حدوں کی لحاظ نہ کرتے ہوے دشمن زیادہ شدت کے ساتھ مظالم کرسکے گا اور ساتھ ساتھ سرمچاروں کو وہاں منظم ہونے نہیں دے گا کیونکہ وہاں آمدورفت اور مواصلات نہ ہونے کی وجہ سے مہذب دنیا اسکی ظلم سے بے خبر رہیگی۔ دوسرا فائدہ، شہری آبادی کو جنگ سے بے خبر کرنا تھا تاکہ نوجوانوں کے کانوں تک جنگ کی آواز نہ پہنچ پائے کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ شہر میں گولیوں کی آواز خود لوگوں کی ذہن سازی کر کے ان کیلئے سیاسی اور جنگی پختگیوں کی سبب بنے گی۔ اس سے شہری آبادیوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہونگے لوگ سوچنے پر مجبور ہوکر جستجو کرنے لگیں گے، جب کوئی قوم جستجو اور سوچنے کیلئے بیٹھ گیا تو اسے ضرور اپنے ہتھکڑیاں اپنی غلامی نظر آئینگی، خاص کر اس سے مقامی آبادی کا خوف ختم ہوگی جو دشمن کیلئے آگے اپنا قبضہ برقرار رکھنا اور مشکل ہوجائیگا۔

دوسری طرف آجکل دشمن نے اپنی جنگی حکمت عملی بھی تبدیل کی ہے مقامی مخبروں کی زیادہ سے زیادہ بھرتی، نئے ٹیکنالوجی کا استعمال خاص کر ٹریکر اور ڈرون کا، ٹارگٹڈ آپریشن میں تیزی، انفارمیشن جمع کرنے میں خاصی پیش رفت اور کسی حد تک بلوچ سرمچاروں کے ٹھکانوں تک رسائی حاصل کرنا شامل ہیں۔

اب دشمن کی اس حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچ جنگجوؤں کو بھی اپنی جنگی منصوبہ تبدیل کرنی ہوگی۔ بلوچ جنگی لیڈروں کو خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ جنگی ماحول میں تبدیلیاں لانی ہوگی۔ پہلا یہ کہ جنگ کا زور مکران اور آواران کے کچھ پہاڑی علاقوں سے نکال کر بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں جنگ کو پھیلانا ہے خاص کر واشک چاغی کے پہاڑوں میں اپنا کیمپ بناکر ملحقہ علاقوں میں دشمن پر بھرپور حملہ کرنا اور آر سی ڈی سے منسلک علاقوں میں جنگ کو پہنچانا یا تیز کرنا ہے کیونکہ جنگ جتنا پھیلا ہوا ہوگا دشمن کیلئے اتنا زیادہ مشکلات پیدا کرے گی۔ دوسرا، دشمن اب انفرادی قوت سے زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے پر توجہ دے رہا ہے اور اسکے ٹیکنالوجی بغیر انفارمیشن کے کارآمد ثابت نہیں ہونگے، تو اس نئے جنگی فیز کو سمجھنے اور اسے کاؤنٹر کرنے کیلئے بلوچ جنگجوؤں کو زیادہ سے زیادہ انفارمیشن پر زور دینا چاہیے کیونکہ اس دور میں ٹیکنیکل اور لچکدار سرمچار ہی دشمن کو زیادہ نقصان دیکر اپنی بچاؤ کر سکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ جنگ کو دوبارہ زیادہ سے زیادہ شہروں کی طرف لانا ہے۔ جتنا ہوسکے جنگ شہروں تک پہنچانا ہوگا، دشمن سے شہر کے اندر لڑنا ہوگا۔ پہاڑوں میں شہید ہونے سے اگر کوئی سرمچار شہر کے اندر جنگ کے دوران شہید ہو جائے تو یہ تحریک آزادی کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوگا اس سے نہ صرف لوگوں میں مزید واضح سمجھ آئے گی بلکہ دشمن نہ چاہتے ہوئے اپنا اصل چہرہ جو ایک ظالم خونخوار کے سوا کچھ نہیں ہے، جلد عوام کو دکھائے گی اور اس سے ایک دن عوام کے ذہنوں سے دشمن کا خوف مکمل نکل جائے گا ۔ دشمن کی ظلم میں اسکی اپنی موت ہے۔

بیس سال پہلے جو کمزوریاں تھی اب وہ دہرانا نہیں چاہیے، کم سے کم وقت اور نقص میں تحریک آزادی کو زیادہ سے زیادہ کامیابی کے ساتھ آگے لیجانا ہے۔ نئے نسل میں آزادی کی جنگ کیلئے جذبہ بہت ہے، پاکستانی مظالم سے اب لوگ تھک چکے ہیں۔ لیڈرشپ کو وقت و حالات کی نزاکت کی مناسبت سے لوگوں کے جذبات کو سمجھ کر انہیں بہترین پلاننگ و اتحاد کے ساتھ بروئے کار لانا چاہیے۔ اپنے سپاہیوں کو ذہنی و جسمانی پختگی سے لیس کر کے دشمن پر ہر طرف سے وار کرنا ہے تاکہ دشمن اتنا زخمی ہوجائے کہ چل پھر نہ سکے۔ ہر طرف سے دشمن اپنے لئے موت دیکھے اور گھبراہٹ میں آکر وہ ایسی غلطیاں کریگا جس سے عوام میں حوصلہ بڑھے گی اور مقامی لوگوں سے ڈر ختم ہوگی۔ بہترین لیڈرشپ کے اندر ایک بے خوف نڈر نسل کے لیے آزادی حاصل کرنا اور دشمن کا دم ہلاتے بھاگنا مشکل یا دور نہیں ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں