بلوچ اسکالر کی کتابیں کہاں ہیں؟ ۔محمد خان داؤد

553

بلوچ اسکالر کی کتابیں کہاں ہیں؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جن ہاتھوں میں کتابیں ہوا کرتی تھی ان ہاتھوں میں لوہے کی ہتھکڑی ہے
کتابیں کہاں گم ہو گئیں؟
وہ جو دانشور ہے اور اب ایسے بیٹھا ہے جیسے مجرموں کو صاحب کے سامنے بٹھایا جاتا ہے
وہ اسکالر ہے ایسا اسکالر جو، جو کچھ تحقیق کرتا اسے دھرتی سے جوڑ دیتا
جو کچھ سیکھتا اسے دھرتی کے بچوں کو سکھاتا
وہ ایک جستجو بھرا اسکالر ہے، جس دن اسے اغواء کیا گیا، اُٹھا لیا گیا وہ تو اس دن علم کی آبیاری میں تھا
جو سیکھ آیا تھا اسے بلوچ دھرتی کے بچوں میں منتقل کر رہا تھا
اور اسی دن اس کے آنکھوں پر موٹی سی سیاہ پٹی باندھی گئی، اسے گالیاں دی گئیں اور گاڑی کی پچھلی نشست پر پھینک دیا گیا، پر وہ موٹی سیاہ پٹی علم کی آنکھوں پر باندھی گئی تھی، وہ گالیاں کتابوں کو دی گئیں تھیں اور جو گاڑی کی پچھلی نشست پر ہاتھ باندھ کر پھینکا گیا وہ حفیظ بلوچ نہ تھا وہ علم تھا وہ دانائی تھی، وہ اسکالر تھا وہ فلاسفر تھا وہ علم کو منتقل کرنے کا آلہ تھا!

اب جب اسے ظاہر کرکے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر اس کی تصویر کو وائرل کیا جا رہا ہے تو اس سے کیا مطلب لیں؟ کیا بلوچ دھرتی کے بیٹے نہ پڑھیں؟ اگر پڑھیں تو اپنا علم آگے منتقل نہ کریں؟ اگر اپنا علم آگے منتقل کریں تو کیا خود آگے نہ بڑھیں؟ کیا وہ اپنی دانائی ان دھرتی کے بیٹوں کے سپرد نہ کریں جو ویسے بھی بڑے شہروں سے دور ہیں اور انہیں علم حاصل کرنے کے کوئی ذرائع نہیں جو صبح شام پہاڑوں کے دامنوں میں نخلستانوں اور کھجیوں کے بیچ پسینہ بہاتے رہتے ہیں کیا وہ نہ جانے کہ کتابوں میں کیا ہے؟

کیا وہ نہ جانیں کہ علم کی کیا گہرائی ہے؟ کیا وہ نہ جان پائیں کہ کتابیں انسان کے اندر کا کون سا در کھولتی ہیں؟ کیا وہ یہ نہ جان پائیں کہ کتابیں بس خواب دیکھنے پر نہیں اُکساتیں پر وہ ان خوابوں سے سونے بھی نہیں دیتی؟ کیا وہ یہ نہ جانیں کہ کتابیں بس خواب نہیں دکھاتیں پر کتابیں ان خوابوں میں رنگ بھی بھرتی ہیں اور جب ایسا کوئی کتابوں کا عاشق شہر کی پُر پیچ گلیوں سے ہوتا پہاڑوں کے دامنوں میں اُترتا ہے اور اپنی ہاتھوں میں کتابیں لیے صدا لگتا ہے کہ
”خواب لے لو خواب!“
تو وہ خوابوں کا سوداگر گالیاں کھا کر آنکھوں پر موٹی پٹی بندھوا کر گم کر دیا جاتا ہے
تو پھر پہاڑوں کے آس پاس رہنے والے بچے کیا کریں؟
وہ کتابوں کے رمز سمجھیں یا سہم جائیں؟
اتنے دنوں سے وہ سہمے ہوئے ہی تھے جب بھی ان کے سامنے اپنے استاد اسکالر کا نام لیا جاتا وہ سہم جاتے!
نہیں معلوم اس اسکالر کی کتابیں کہاں رہ گئیں
تحقیق اور مکالہ کہاں رہ گیا
کتابیں باتیں اور فلاسفی کہاں رہ گئی؟
دانشوری اور علمی کہاں رہ گئی؟
اب تو بس ہر طرف لاعلمی سی لاعلمی ہے!
جو لے گئے وہ کچھ بتانے سے قاصر ہیں جو اسے تھانے چھوڑ گئے وہ کچھ نہیں جانتے اور جو اب اس پر ایف آئی آر درج کر کے اسے ہتھکڑی لگا کے بیٹھے ہیں وہ بھی بے خبر ہیں
یہ کیسی عجیب بات ہے جو سب سے زیادہ با خبر تھا وہی آج سب سے زیادہ بے خبر ہے
اس با خبری اور بے خبری کے بیچ ایسا کیا ہے کہ ایک با خبر دانشور بے خبری کے عذاب سے گزر رہا ہے
وہ جو سب کچھ جانتا تھا آج کچھ نہیں جانتا
وہ جو کتابوں میں گھرا رہتا تھا آج ہتھکڑی پہنے کچھ سوچ رہا ہے
کیا یہ زوال کے دن ہیں؟
یا دنوں کو زوال لگ گیا ہے!
”بہت ہی زوال کے دن ہیں
کوئی تو کمال کرو!“
پر کمال کون کریگا؟ جو کرسکتے ہیں وہ تو خود ہی مفکروں پر زوال مسلط کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں سے کتابیں چھوٹ جاتی ہیں اور وہ اندھیاری کوٹھڑیوں میں گم ہو جاتے ہیں
اور جن کو ایسے مفکروں کی فکر ہو وہ تو سب سے بڑے بے فکرے ہیں وہ تو جانتے ہی نہیں کہ میرے دیس پر کیا کچھ بیت گیا وہ تو سیاست کی بھول بھلیوں میں قید ہیں وہ دیس کے درد سے لاعلم رہ کے مزے میں رہتے ہیں تو باقی کون جانے کہ عالموں اور عاشقوں پر کیا بیتی؟
بس مائیں رہ جاتی ہیں جو دن کے اجالے میں گم شدہ بیٹوں کی تصویروں کو سینے سے لگائے رکھتی ہیں
اور رات کے اندھیرے میں اشک بار ہو تی ہیں!
اور ان دردیلی ماؤں کی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ
”شام ہی سے
رات گئے تک
درد کی بارش رہی
مجھ پر
تم جو درد بن کر ٹھہر گئے ہو!“
ایسی ماؤں کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ جب دھرتی پر بہت ہی زوال کے دن ہیں جب اس کا ظاہر ہو جانا کمال سے کم نہیں،
ہاتھوں میں ہتھکڑی صحیح
سوچ منتشر ہی صحیح
پر یہ اس ماں کے لیے بڑی خبر ہے کہ وہ ماں بُری خبروں کے طوفان سے نکل آئی ہے
وہ ماں جس کا دل ہر روز ڈوبتے سورج کے ساتھ ڈوب جاتا
اور طلوع ہوتے سورج کے ساتھ اس ماں کا درد اور اشک بار آنکھیں طلوع ہو جاتیں
اس ماں کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جب وہ ظاہر ہوا ہے تو اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے یا کتابیں؟
وہ ماں تو بس اس کا زندہ جاوید چہرے کے دیدار کو بے تاب تھی
اب اس ماں کے دل کو قرار آیا
اور ڈوبتے دل کو چین
پر پھر بھی یہ سوال تو اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ
بلوچ اسکالر کی کتابیں کہاں ہیں؟
یہ سوال بے چین ماں سے نہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں