بلوچ پیپلز کانگریس کے رہنماء عبدالرحمان بلوچ، روز حاتون بلوچ اور ہانی گل بلوچ نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں کو بلوچستان میں جاری حالیہ صورتحال اور بلوچ پیپلز کانگریس تنظیم کی منشور پر تفصیلی بریفنگ دی-
کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچ پیپلز کانگریس رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہماری بلوچ پیپلز کانگریس دنیا بھر میں رہنے والے بلوچوں کی آواز ہے خواں وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو ہماری پارٹی بلوچوں کےمسائل حل کرنے اور ان کو منظم و متحد کرنے میں اقوام متحدہ کے اصولوں کی روشنی میں رہنمائی کرتی ہے اور بلوچ پیپلز گانگریس بانک نائلہ قادری کے قیادت میں اپنے آئین اور آصولوں پر کاربند ہے-
پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پروفیسر نائلہ قادری اقوام متحدہ میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی بلوچ خاتون ہے جنھوں نے زرینہ مری، احسان ارجمندی، نسیم بلوچ اور راشد حسین سمیت متعدد لاپتہ بلوچوں کے کیسز کو اقوام متحدہ میں جمع کرائی اور ان پر آواز اٹھائی جبکہ ہماری پارٹی کی بنیاد عظیم قوم پرست رہنماء واجہ جمعہ خان کی جہدو جہد پر قائم ہے جنہوں نے ہمیشہ بلوچ قومی شناخت کی جہدو جہد کی اور بلوچ قومی تحریک کو سائنسی بنیادوں پر منظم کرنے والے بلوچ طلبا کی پہلی تنظیم بلوچ ورنا وانندہ گل کے بنیاد گزار واجہ صدیق ازاد بلوچ پیپلز کانگریس کے سیکرٹری جنرل ہیں-
انہوں نے کہا کہ واجہ صدیق آزاد نے اپنی تمام عمر بلوچ قومی جہدو جہد کے لئے وقف کی ایوبی آمریت کے دور میں سرکاری ریڈیو بلوچی میں خبریں پڑتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام خبریں جھوٹیں ہیں جس کے پاداش میں انہں ملک بدر ہونا پڑا تھا جب کے ہمارے پارٹی کے صدر سینئر سیاست دان حکیم لہڑی ہیں پارٹی قیادت میں شامل دیگر افراد اس عزم کے ساتھ موجود ہیں کہ بلوچ وطن کی بحالی تک جہدو جہد جاری رکھینگے-
بلوچ پیپلز کانگریس رہنماؤ نے اپنے پریس کانفرنس میں بلوچستان جاری حالیہ کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تشدد کی پالیسی اور ہر سوال کاجواب گولی ہے جبری گمشدگی کی صورتحال میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے جہاں بمبور میں گھر اور قران مجید بھی جلائے گئے خود کو مسلمان کہنے والے بلوچ دشمنی میں قران پاک کا احترام بھی بھول گئے جبکہ آج کے دن تک 55 ہزار سے زائد بلوچ اس وقت ریاستی عقوبت میں ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں صرف فروری کے مہینے میں ڈیڑھ سو سے زائد بلوچ جبری طور پر گمشدہ کئے جاچکے ہیں اجتماعی سزا کے طور پر جو بلوچ ہاتھ لگے اٹھا لیا جاتا ہے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پوسٹ گریجویٹ کے طالبعلم حفیظ بلوچ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پنجاب میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کے طالب علم دلیپ بلوچ سمیت درجنوں طلباء و عام بلوچ حالیہ دنوں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں حتیٰ کہ پنجاب و سندھ سے بھی بلوچوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے جن میں اکثریت طلباء کی ہے-
ریاست پاکستان میں پالیسی یہ ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھاو لکھاو ہمارے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی سزا دو۔ احتشام بلوچ کا گناہ کیا تھا بس کے انتظار میں کھڑا تھا جس کے سر میں گولی ماری گئی، یہ سب ریاست کا بلوچ قوم سے نفرت کا اظہار ہے۔ راشد حسین اور اس کے کزن عبدالحفیظ بلوچ کو عرب امارات میں بھی نہیں چھوڑا گیا پاکستان لاکر عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا-
پارٹی رہنماؤں نے اپنے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا ہے کہ بلوچ پیپلزکانگریس مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچستان میں جاری کشت و خون کا سلسہ فوری بند کیا جائے نہتے بلوچ عوام کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنانا انسانیت کی توہین ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے بلوچ کو عزت اور چین سے جینے کا پورا حق حاصل ہے-