ایک پیغام ایک شخص کے نام
تحریر: دُتّوک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک پیغام ایک شخص کے نام جس کو میں نے ہمیشہ رَد کیا۔جس کو ہمیشہ میں نے جنجھوڑا،ہمیشہ طعنے دیےاور ہمیشہ غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور کبھی کبھار کامیاب بھی ہوا۔وہ شخص جس نے میرے دل کے دروازے پر آکر دستک دی لیکن میں نے کئی بار ٹھکرا دیا۔اِسے پڑھ کر تمھیں شاید یہ لگے کہ یہ دوستی تو نہ تھی شاید ہر کوئی یہی سمجھے لیکن ایک بات واضح ہے کہ جب کوئی شئہ ہر چیز سے زیادہ عزیز ہو اور وہ چند لمحوں کیلئے آنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو انسان پاگل ہوجاتا ہے بلکل اِسی طرح جیسے مچھلی بغیر پانی کے تڑپتا ہے۔میرے عزیز یہ میرے پاگل پَن کی نشانی ہی تھی جب بھی میں تمھیں کچھ کہتا چاہے وہ طعنے ہوتے یا کہ بحث میں اپنے دل کے بھڑکے ہوئے اُس آس کو بجھارہا ہوتا تھا جو ایک عجیب روحانی رشتے کی حیثیت سے،دوست یا یار کی حیثیت سے اور ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے ہمیشہ تمھارے لئے دھڑکتا تھا ۔
میری جانِ جہاں تمھیں وہ شب یاد ہو شاید جب تم مجھے مصیبت کی اُن تاریک لمحوں سے نکالنے کیلئے آئے تھے اور تم مجھ کو دیکھ کر ایک لمحے کیلئے مسکرائے تھے۔اس سے پہلے بھی ہماری ملاقات ہوئی تھی لیکن اس بار جو ملاقات تھی یہ ایک خوشبودار پھول کے مانند تھی۔ یہ لمحہ اپنے آپ میں ایک خوشبو سمائے ہوئی تھی۔ میرے ہمنوا! میں ہمیشہ تمھیں اپنے دل کا حال بتانا چاہتا تھا لیکن میں یہ سوچ کر ڈر جاتا تھا کہ کہیں میرے الفاظ اور احساسوں کی قیمت تمھارے سامنے بیان کرکے کم تو نہیں کروں گا۔ جب بھی تم کو دیکھتا تو ایسے محسوس ہوتا جو مجھ میں کمی ہے وہ پوری ہوگئی ہو اور جو مجھ میں اکیلا پَن یا بچپن سے جو دل میں تنہائی ہے وہ مکمل ہوگئی ہو۔
میرے عزیز میں ہمیشہ تم سے بات کرنے کیلئے کوئی موضوع ڈھونڈتا اور ہمیشہ انتظار کرتا کہ کب تم مجھ سے بات کروگے اور مجھے اپنے پاس بلاؤگے۔میں ہمیشہ انتظار کرتا کہ کب تم مجھے کسی بات پر ڈانٹوگے کیونکہ تمھارا ڈانٹنا بھی دوست میرے لئے کسی قیمتی تحفے سے کم نہ ہوتا۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ اب تک یہ خوشی کبھی نصیب نہ ہوئی لیکن اس کے برعکس میں تمھیں ڈانٹتا تھا اور ناراض ہوکر خاموش ہوجایا کرتا تھا۔مجھے اچھے سے علم تھا کہ تمھیں میری خاموشی تنگ کرتی ہے اور یہ جان کر بھی کہ میں کیوں ناراض ہوں تم مجھ سے پوچھتے تھے کہ دُتّوک تم خاموش کیوں ہو؟۔تمھارا اصرار کرنا اور مجھے منانا اتنا اچھا لگتا تھا کہ کبھی کبھار میں ایسے ہی ناراض ہوجایا کرتا تھا۔
کچھ باتیں تجھ میں اور مجھ میں ایک جیسی ہیں وہ ہماری ضد ہے۔لیکن میری ضد ہمیشہ تمھارے سامنے جیتتا تھا۔ کیونکہ مجھ میں ضد کے ساتھ ساتھ پاگل پَن تھا اور تجھ میں ضد کے ساتھ ساتھ شعور تھا۔ میں کبھی کبھار حیران رہ جاتا تھا کہ میرا پاگل پَن تمھارے شعور کے سامنے جیتتا کیسے تھا خیر یہ بعد کی بات ہے۔او او ذرا رُکیے جناب! میں کبھی بھی نہیں جیتتا تھا کیونکہ میں نے کبھی اُس کی بات کو منع کیا ہی نہیں لیکن جب بات ہم دونوں سے جُدا ہوکر قومی مفادات سے منسلک مسائل پر آتی تب میں ہمیشہ اُس کی ہر ایک بات ضد پر مبنی میں رَد کرتا تھا۔
لیکن کچھ عرصے بعد مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ مجھ سے دور ہونے لگا ہے۔ میں اب تک اس کشمکش میں ہوں کہ میں تمھیں سمجھ نہ سکا یا شاید تم مجھے سمجھ نہ پائے۔ کیونکہ اب وہ مجھے اُس طرح سے ترجیح نہیں دے رہا تھا جیسے پہلے دیتا تھا۔دوسرے دوستوں کے ساتھ چائے پینے چلتا تھا لیکن مجھ سے یہ کہنا شاید بہت عرسے پہلے بھول چکا تھا کہ چھوٹے چلو چائے پینے چلتے ہیں۔اور میں اپنے دوستی کا بھرم رکھنے کیلئے کبھی ضد یا التجاء نہیں کرتا تھا کہ میں تمھارے ساتھ آنا چاہتا ہوں اور تمھارے ساتھ گھومنا چاہتا ہوں حالانکہ دوست بہت تھے لیکن وہ تھوڑا نہیں پورا میرے دل میں سَما گیا تھا۔ میں ہمیشہ دل کو یہ بات کہہ کر تسلی دیا کرتا تھا کہ میں تو ہمیشہ سے اکیلا تھا مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔میں نے بہت جاننے کی کوشش کی تاکہ معلوم کرسکوں کہ آخر میں نے وہ کونسی غلطی کردی ہے جو وہ مجھ سے دور ہونے لگا ہے۔لیکن میں ایسی کوئی وجہ جان نہ پایا سوائے اِس کے کہ اُس کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔
میرے محبوب تمھارا الگ ہونا بھی میرے لئے کسی تحفے سے کم نہ تھا کیونکہ جب بھی کسی چیز کو توڑ توڑ کر تراشا جاتا ہے وہ بے انتہا چمکدار ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔میں مضبوط تو ہوا لیکن مکمل نہیں ہوا جیسے تم مجھ میں بَس گئے ہو۔ شروع کے دنوں میں تو جیسے میری روح کسی نے چھین لی تھی اور میں بستر پر پڑا مردہ جسم کی مانند تھا۔لیکن وہ نہ مجھ سے زیادہ حال پوچھتا نہ ہی مزاق کرتا تھا اور اُس کا رویہ تو پوری طرح میرے ساتھ بدل گیا تھا۔میں نے کوشش کی جاننے کی لیکن ایک بار پھر مجھے یہی لگا کہ اُس کی ترجیحات بدل گئی ہیں شاید ایسا نہ ہو۔
جب حد سے زیادہ محبت کسی سے ہو تو حد سے زیادہ نفرت بھی اُسی سے ہوتا ہے اور درد بھی اُسی سے ملتا ہے۔کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد جب وہ میری طرف نہیں لوٹے تو مجھ میں میرے پاگل پَن نے جگہ بنالی اور مجھ سے کہا کہ تو وہ ٹکڑا نہیں جو بنتے ہی ہیں کٹنے کیلئے، تو وہ پتھر ہے جس کے پاس ہوا وہ امیر ہوا۔لیکن یہ مزاق تھا حقیقت مت سمجھنا کبھی کبھار ڈائیلاگ مارتا ہوں مانتا ہوں۔لیکن میں نے اکیلے جنگ لڑنا سیکھ لیا تھا اور میں ہمیشہ سے تھا ہی اکیلا کیونکہ جس کو میں بے تحاشہ چاہتا وہ مجھ سے ہمیشہ کیلئے دور ہوجاتا۔اب نہ وہ مجھے زیادہ بھاؤ دیتا نہ ہی میں اُسے زیادہ بھاؤ دیتا کیونکہ میں نے سیکھا ہے زندگی سے کہ جو خود کی عزت نہیں کرتے تو اُن کی عزت بھی کوئی نہیں کرتا۔میں بے رحم بن گیا تھا اور مجھے اب کسی کی پرواہ نہ ہونے لگی۔راحت اندوری کا شعر یہاں پر خوب جچتا ہے ۔وہ
کہتے ہیں کہ
“یہ چند لوگ جو بستی میں سب سے اچھے ہیں
اِنہی کا کام ہے مجھ کو بُرا بنانے میں”
لیکن میں بس تمھارے ایک اشارے کا منتظر تھا جانم کہ کب تم بلاؤ اور میں فدا ہوجاؤں۔میری ضد،میری اَنا اور میری نفرت بھی میری محبت کی اِنتہا تھی۔زیادہ واضح نہیں کرنا چاہوں گا لیکن جب وقت ختم ہونے جارہا تھا تو تم اور میں دوبارہ آمنے سامنے ہوئے اور ٹوٹ کر بکھر گئے۔میں ہزاروں کتابیں لکھ سکتا ہوں اِن احساسات پر، ان ناراضگیوں پَر اور پھر گَلے لگ جانے تک۔لیکن میری ایک کمزوری ہے میں کبھی اپنے آپ کو پیش کرنا نہیں جانتا اور شاید الفاظ بھی صحیح طرح سے پیش نہ کیے ہوں تو معاف کیجئے گا۔
یہ ختم نہیں ہوا یہ تب تک جاری رہے گا میرے بد معاش! جب تک ہم دونوں کا وجود اِس سرزمین پر برقرار رہے گا ۔
تمھارا دُتّوک
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں