این ڈی پی مرکزی اجلاس، اہم فیصلے لیئے گئے

286

مرکزی رہنماء ڈاکٹر جمیل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف اور ان کو بازیاب کرنے کیلئے ہر آئینی اور جائز طریقہ بروئے کار لایا جائے گا ،ان خیالات کا اظہار نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماوں نے آٹھویں مرکزی آرگنائزنگ باڈی اجلاس کے موقع پر کیا۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا آٹھواں مرکزی آرگنائزنگ باڈی اجلاس زیر صدارت مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ بمقام شال منعقد ہوا۔ اجلاس میں مرکزی سیکرٹری رپورٹ، تنقید برائے تعمیر، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، تنظیمی امور و آئندہ لائحہ عمل سمیت مختلف ایجنڈے زیر بحث رہیں۔

اجلاس سے مرکزی رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت روس اور یوکرین کی لڑائی کی وجہ سے دنیا کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوتی جا رہی ہے، کابل پر طالبان کا قبضہ، چائنا اور ویتنام کا مسئلہ، اسکے ساتھ ہی قوم پرستی کی بنیاد پر چلنے والے تحریکوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ داروں اور سامراجوں کے درمیان لڑائی نے ہمیشہ دنیا میں غلامی اور محکومی کو بڑھانے اور محکوم اقوام کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنے کے سواء اور کچھ نہیں کیا ہے۔ لیکن تاریخ کے اندر یہ پنہاں ہے کہ سامراجوں کے خلاف ہمیشہ جو لڑائی لڑی گئی ہے وہ قوم پرستوں نے لڑی ہے اور آج بھی اس خطہ یعنی سینٹرل ایشیا میں حاکم اور سامراجوں کے خلاف قوم پرست ہی برسر پیکار ہیں۔

رہنماوں نے کہا کہ سامراجوں نے اپنی گھناونی پالیسی تقسیم کرو، حکومت کرو والی پالیسی کے تحت برصغیر کو تقسیم کرکے پوری دنیا کیلئے وبال جان بنا دیا، اسی وجہ سے فرنگیوں نے بلوچستان کو بھی قبضہ کیا،  جو کہ آج بھی سامراجوں اور حاکموں کے رحم و کرم پر ہے، اس خطے کے مالک بلوچ قوم آج کے اس جدید دور میں بھی ان حاکموں کیلئے کیڑے مکوڑے کی مانند ہے، جب بھی چاہے ان کو کچل ڈالے، جب چاہے اس سر زمین کے مال و دولت کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹتے جائیں، گذشتہ دنوں سیندک اور ریکوڈک کی معاہدات اور لوٹ ماری ان کی تازہ مثالیں ہیں، اس لیے دنیا کی موجودہ صورتحال اور خاص کر اس خطے کے بد ترین صورتحال کو مدنظر کر بلوچ قوم پرستوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے ان حالات کا ادارک کرکے اپنی سرزمین اور اپنی قوم کی بقا کی خاطر سب کچھ بالائے طاق رکھ کر ایک فیصلہ کن موڑ کی طرف جانا ہو گا، کیونکہ ہم یہی سمجھتے ہیں اگر ہماری یہی صورت حال رہی یا غیر سنجیدگی کا یہ عالم رہا تو ہم مزید اس محکومی کے دلدل میں پھنس کرکے صرف اور صرف قیمتی جانوں کو ضیاع کرکے آخر میں صرف افسوس کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا،  لہذا ہم تمام قوم پرستوں سے یہ التماس کرتے ہیں کہ وہ سر زمین بلوچستان کی خاطر یک جان و یک مشت ہوکر جدوجہدکو آگے لے جائیں۔

رہنماوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ انسانی حقوق کا ہے، کیونکہ حاکموں، سول اور ملٹری اسٹیلشمنٹ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ بلوچستان کے اندر کسی کو سیاست کرنے یا سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر کوئی بھی شخص یا کوئی بھی ادارہ سیاست کرے یا اپنی حقوق کیلئے، اپنے اردگرد درپیش مسائل کے خلاف آواز اٹھائے تو اس کی صرف ایک سزا ہے کہ اس کو جبری طور پر گمشدہ کیا جائے اگر ضرورت رہی تو اس کو گولی مار کر اس کی مسخ شدہ لاش بھی پھینکی جاتی ہے، اسی لیے سیکیورٹی اداروں کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جب بھی، جہاں بھی چاہیے کسی بھی وقت کسی بلوچ کو بغیر ثبوت کے جبری طور گمشدہ کرکے عقوبت خانو ں میں بند کیا جا تا ہے، اوراس میں سب سے زیادہ طالب علموں اور سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کامقام ہے کہ بلوچستان کے اندر موجود اداروں، تنظیموں، پارٹیاں اور سیاسی شخصیات اپنی سیاست چمکانے کی خاطر لاپتہ افراد کا نعرہ لگاتے ہیں کہ لیکن کوئی بھی پارٹی یا ادارہ اس مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دی رہی ہے۔

رہنماوں نے مزید کہا کہ اسی طرح ہمارے مرکزی رہنماء ڈاکٹر جمیل بلوچ کو بھی اسی سیاسی سرگرمی، علاقائی در پیش مسائل کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں بارکھان سے جبری طور لاپتہ کیا گیا ہے جو کہ تاحال لاپتہ ہے، اسی طرح بارکھان سے بارکھان نوجوان اتحاد کے سربراہ شاہ زین کھیتران، نسیم کھیران کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، اور اسلام آباد کے ایم فل اسکالر حفیظ بلوچ کو بھی جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے جس کے خلاف اسلام آباد کے تمام بلوچ طلبہ سراپا احتجاج پر ہیں۔

رہنماوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں بارکھان کے ان نوجوانوں کو حالیہ دور میں بارکھان میں در پیش مسائل خصوصاً بوگس ڈومیسائل کے خلاف احتجاج، اور آواز اٹھانے کی سزا دی جا رہی ہے۔  اس کے علاوہ  بلوچستان میں بڑھتی قبائلی تنازعات کا معاملہ جو نوآبادیاتی نظام کے لئے ایندھن کا کام کر رہا تھا جس کے خلاف پارٹی کے مرکزی پالیسی کے تحت جمیل بلوچ نے نا صرف آواز اٹھائی بلکہ علاقوں میں بلوچ  یکجہتی کی تبلیغ کرتے ہوئے قبائلی تنازعات کے پیچھے چھپے اصل محرکات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی رہنماء ڈاکٹر جمیل بلوچ کی جبری گمشدگی سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جتنا ممکن ہو سکا، ہر آئینی اور جائز طریقہ بروئے کار لا کر بازیابی کیلئے کردار ادا کیا جائے گی۔

اجلاس کے آخر میں عالمی سیاسی صورتحال سمیت  بلوچ اور بلوچستان کے موجودہ حالات اور مسائل کو مد نظر رکھ کر بہت  سے فیصلے لئے گئے۔