اپنی زبان سے وابستگی لازمی ہے
تحریر: مولانا منور مہر تُمپی
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں ہر قوم و ملّت کی ترقی میں اُنکے ادیب اور دانشوروں کا ایک اہم کردار ہے، اگر آج ہم اُن ترقی یافتہ اقوام کی طرف نظر ڈالیں جنہوں نے دُنیا میں اپنا ایک مقام اور شناخت برقرار رکھا ہے اور لوگوں کا اُن اقوام کی طرف رُجحان اور اُنکی طرف سفر کرنے پر مجبور ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اُن اقوام نے سائنسی ترقی و تجارتی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے دانشوروں اور ادیبوں کو اپنی زبان کی شناخت کو زندہ رکھنے کے لیے بہت اہمیت دی ہے۔
دستور بھی یہی ہے کہ دنیا میں آپ کو بہترین شناخت آپ کی مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسرا دے بھی نہیں سکتا کیونکہ ہماری ترقی اُس وقت ممکن ہے جب غیر اقوام اور غیر زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہماری زبان سمجھنے کے مشتاق ہوں اور ہماری زبان کی اہمیت کو جان سکیں اور اپنی زبان کو دُنیا میں ایک بڑی شناخت دینے کے لیے سب سے بُنیادی چیز یہی ہے کہ آپ کی خود اپنی زبان کے ساتھ وابستگی ہو اور زبان کے تمام ادبی اصول و ضوابط پر مہارت حاصل ہو یا اُن دانشوروں اور ادیبوں کی قدر و منزلت برقرار رکھی جائے جو اپنی زبان کی شناخت کو برقرار رکھنے کی صبح و شام کوشش کررہے ہیں اور اُن سے ہر کمزور طبقہ کچھ حاصل کرنے اور سیکھنے کی لگاؤ رکھیں۔
ایک مقولہ ہے جب بندہ اپنی اصلاح نہ کرسکے تو وہ دوسرے ہمسایوں کو کیا نصیحت کرسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم بلوچ قوم بلکل ناواقف ہیں کہ اللہ پاک نے ہمیں خود ایک عظیم اور بہترین زبان سے نوازا ہے جو اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا جسکا کوئی مثل نہیں، ہم نے اس کو چھوڑ کر غیر زبانوں کی طرف زیادہ توجہ دے رکھی ہے جو سراسر اپنی زبان کے ساتھ دھوکہ ہے۔
میں اس بات کی ہرگز مخالفت نہیں کرتا کہ ہم دوسرے غیر زبانوں کو نہیں سیکھیں یا انہیں نہ پڑھیں، بلکل اُن زبانوں کو سیکھنا بھی چاہیے اور پڑھنا بھی چاہیے لیکن اُن سے زیادہ اپنی زبان کے معاملے میں مزید شوق و لگن رکھنا چاہیے اور اپنے ترقی اور زبان کی شناخت کے لیے شب و روز محنت کرنا چاہیے اور ہر اٗس شخص کی پہچان (جنکا زبان کے ساتھ گہری دلچسپی ہے) یہی ہے کہ وہ اپنی زبان کی ترقی کے لیے ہمیشہ جہد کرتا رہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں