القاعدہ اور افغان جہاد ۔ افروز رند

687

القاعدہ اور افغان جہاد

تحریر:افروز رند

دی بلوچستان پوسٹ

یہ ایک اسٹرٹجیک وارتھی جسے آپریش سائیکلون کا نام دیکر شروع کیا گیا تھا، اور اس مقصد کیلئے سعودی عرب نے دل کھول کر خرچ کئے اور پاکستانی سرزمین لانچنگ پیڈ کے طورپر استعمال ہوئی۔ 1983 کو سعودی عرب کی سربراہی میں 7 مجاہدین گروپوں کے ایک اتحاد کی تشکیل ہوئی ان کے نام یہ ہیں’ حزب ال سلام’ محاذ ملی ‘ جمیعت اسلام ‘ اتحاد اسلام ‘ حزب اسلام خالص اور حرکت انقلابَ اسلام یہ تمام گروپ سنی اسلام پسندوں کے تھے اور سوائے ایک کے باقی تمام پشتونوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس اتحاد کو اسلامک الائنس آف افغان مجاہدین یا افغان مجاہدین کہا جاتاتھا۔ اس اتحاد کے سربراہ عبدالرسول سیاف کو بنایا گیا جو طویل مدت سے سعودی عرب میں مقیم تھے، عبدالرسول سیاف اتحاد اسلامی کے سربراہ بھی تھے ۔

اتحاد اسلامی کے بارے میں پہلے ہی یہ تاثر عام تھی کہ انہیں سعودی فنڈ کرتی ہے لیکن اس اتحاد کے بعد کوئی شبہات کی گنجائش نہ رہی اور سب گچھ واضح ہوگئی۔ عبدالرسول سیاف سعودی آلشیخ اور سعود خاندان کے زیادہ قریب تھے اور ان کا مذہب بھی سلفی ازم تھا جسے ہم وھابی ازم کے نام سے جانتے ہیں یعنی مولانا عبدلوہاب کا نظریہ اسلام کا پرچار کرنے والا (سیاف) اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور سعودی عرب کے اثروسوخ کیلئے کام بھی کرتے رہے تھے۔

مولانا سیاف افغان جنگ کو لیڈ کرنے کیلئے پشاور منتقل ہوگئے، جلد اس پراکسی وار کیلئے سعودی عرب اور مصر سے آنے والے نوجوانوں کی بھرمار ہوگئی اور پاکستان کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ہزاروں جوشیلے جوان بھرتی کروائے، ان میں زیادہ ترکا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان سے تھا اکثریت پشتون کی تھی، تاہم اس جنگ میں عرب ریڈیکل اسلام پسند بھی شامل تھے ان گروپون کے خفیہ سیل تھے جوکہ کالج اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو جوش جہاد اور جذبہ شہادت کے نام پر بھرتی کرتے تھے لیکن اس کام کے سب سے بڑے سرمایہ دیوبند اور سیلفی ازم کے وہ مدارس تھے جنہون نے ڈالروں کی خاطر ہزاروں نوجوانوں کو حوروں کا جھانسہ دیکر سویت کے خلاف لڑنے کیلئے تیار کرکے بھیج دیا۔

کہا جاتاہے کہ 1980 تک پاکستان میں مدارس کی تعداد 900 کے قریب تھی جب افغانستان کی جہاد شروع ہوئی تو ان مدارس کی تعداد 3 ہزار سے بھی تجاوز کرگئی لیکن یہ تو شروعات تھی پاکستان کے نامور انگریزی اخبار ڈان کے مطابق یہ مدارس زیادہ تر دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور ان مدارس کے طلبہ نے افغان سویت وار میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا اور کرتے بھی کیوں نہ جب وہ سالانہ صرف امریکہ سے 70 سے 80 ملین ڈالر وصول کررہے تھے۔ سعودی عرب کے مدارس والی فنڈ تو الگ تھی ملاوں کے کاروبار کو پہلی مرتبہ چار چاند لگ گئے۔ تجریہ کار کہتے ہیں کہ جتنے فنڈ امریکہ نے فراہم کئے تھے اتنے سعودی نے بھی فراہم کئے۔

عراق کویت جنگ کے وقت جب امریکی فوج سعودی عرب آئی تو مذہبی طبقے نے اسے شدید ناپسند کیا ‘ ان میں شیخ اسامہ بن لادن بھی شامل تھے جو افغان جہاد کےوقت ایک عرب زیرک کمانڈر تھے اسامہ سعودی کے امیر تریں کاروباری شیخوں میں سے تھے کہا جاتاہے کہ اسامہ کے والد نے شروع میں مزدوری کرکے ایک ٹرک خریدا تھا اور پھر اس ٹرک سے کاروبار آگے بڑھاتے ہوئے سعودی عرب کے سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی بنانے میں کامیاب ہوئے اور بلینر بن گئے تھے۔

تاریخ عجیب داو پیچ کھلینے والی ایک ایسی شئے ہے جسے کسی پر رحم نہیں آتا کامیاب وہ لوگ ہوتے ہیں جو محنت کرتے ہیں۔

مئی 1991 کو تمام اتحادی افواج سعودی عرب سے نکل گئے لیکن امریکی فوج عراق میں نو فلائی زون برقرار رکھنے کیلئے الخرج ایئربیس پر رک گئی لیکن اس سے مذہبی لوگ یہ سمجھے کہ امریکہ اب سعودی سے نہ جانے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے، اسلیئے انہوں نے خفیہ خانوں میں امریکہ کے خلاف سرگرمیاں شروع کیں اور سعودی عرب کے سیول سوسائٹی نے السعود خاندان کے خلاف بھی احتجاج شروع کیا جو کہ مولویوں کی سرپرستی میں جمہوری اور سیاسی حقوق کی بات کرنے لگے۔ اس کا فائدہ مذہبی اسٹبلشمنٹ کو ہوئی اور اس نے حکومت سے اپنے شرائط منوائے، اس میں مذاہب کی ترویج کا معاہدہ مذہبی آئین بنانا اور ایک 60 رکنی کونسل بادشاہ کی سربراہی میں قائم کروانا شامل تھا۔ گوکہ کونسل برائے نام تھی تاہم مذہبی طبقے نے سعودی حکام کو جھکادیا کیونکہ سعودی حکام چاہتے تھے کہ مذہبی اسٹبلشمنٹ عوام کو اکسانے سے باز رہے۔

لیکن ہوا وہی جو ہمیشہ جذبات کو دبانے سے ہوتا آیا ہے اور پھر ایک نئی تاریخ اور جنگ شروع ہوئی جس نے دنیا پر نہ مٹنے والے اثراث نقوش کرلئے سعودی عرب کے حکومت کے خلاف کچھ لوگوں نے مسلح تحریک شروع کی ان میں سر فہرست شیخ اسامہ تھے شیخ نے لوگوں کو بتایا کہ شاہ فہد نے یہود ونصارا کا ساتھ دیکر ایسی گناہ کی ہے کہ اس کی کوئی معافی تلافی ممکن نہیں اسامہ کی سحر انگیز تقریروں اور کرشماتی شخصیت کی وجہ سے بہت جلد القاعدہ سعودی عرب میں جڑ پکڑنے لگی اور یہ سعود خاندان کیلئے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔

ہوا یہ کہ 25 جون 1996 کو سعودی عرب کے ساحلی شہر میں الخبر ٹاور کو ٹرک دھماکے سے اڑا دیا گیا یہ وہ بلڈنگ تھی جہاں امریکن ایئرفورس اور سی آئی کے اہلکار عراق میں نو فلائی زون برقرار رکھنے کیلئے رکھے ہوئے تھے اس حملے میں 20 امریکی اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ 500 سو دیگر لوگ زخمی ہوئے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملے حزب اللہ سعودی عرب نے کئے ہیں جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے ان کا کہنا تھا یہ حملہ 1983 میں لبنان میں ہونے والے دھماکے سے ملتا جلتاہے جہاں حزب اللہ لبنان کی ٹرک حملے میں 242 امریکن سب میرین اہلکار ہلاک ہوئے تھے یہ امریکہ کو لبنان سے نکالنے کیلئے کیا گیا تھا اور امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہی عمل سعودی عرب میں دھرایا گیا ہے۔

گوکہ سعودی عرب نے الخبر ٹاور کے الزام میں کچھ لوگوں کو پھانسی دی تاہم انہوں نے مجرم امریکہ کے حوالے نہ کرکے معاملے کو ٹھنڈا کردیا لیکن عبداللہ عزام کے ہونہار شاگرد اسامہ نے سوڈان منتقل ہونے کے بعد سعودی عرب حکومت کے خلاف شدید نفرت پر مبنی تقاریر اور بیان دینا شروع کیا جو کہ ابن سعود کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔ سعودی حکام نے صحافی جمال خشوقی کے زریعے اسامہ کے پاس پیام بھیجا کہ وہ سعودی حکام کو آڑے ہاتھوں لینا بند کرے تاہم شیخ اسامہ نے کسی کی نہ سنی جب کہ القاعد نے عرب اور عجم دنیا میں جڑین خوب پکڑی تھیں کینیا اور تنزانیہ میں القاعدہ نے امریکن سفارت خانون کو ٹرک بمبوں سے اڑا دیا، تب جاکر سی آئی اے کو اندازہ ہوا کہ اسامہ کتنا بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ امریکن اور سعودی پریشر پر سوڈانی حکام نے اسامہ کو ملک سے بیدخل کردیا جبکہ افغانستان میں ابھرتی ہوئی طاقت طالبان نے جون 1996میں اسامہ کو خوش آمدید کہا انہیں اور ان کے رفیقوں سمیت 60 ہزار عرب جنگجووں کو افغان طالبان نے پناہ دی گوکہ ملاعمر شیخ اسامہ کے جہادی پس منظر سے خوب واقف تھے لیکن انہیں ایسی توقع نہیں تھی کہ شیخ افغانستان سے امریکہ سمیت کہیں بڑے حملہ کریں اور انہیں اعتماد میں بھی نہ لیں۔ ملا عمر کے ہان بیعت کرنے کے بعد ملاعمر نے اسامہ کو جلال آباد ‘ قندھار ‘کابل سمیت کئی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ کھولنے کی اجازت دی جبکہ شیخ صاحب عرب دنیا سے اربوں ڈالر جمع کرکے ملاعمر کی بھی خاطر و مدارت کرتے رہے۔ (مسلہ امہ تعمیر نو ) کے نامی تنظیم کے کچھ پاکستانی سائنسدانوں نے شیخ اسامہ اور ایمن الظوہری سے ملاقات کرکے ایٹم بمب بنانے کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا تھا جبکہ جامع دارالعلوم حقانیہ ‘ جامع کراچی اور لال مسجد سمیت پاکستان کے دینی مدارس میں شیخ اسامہ نے اچھی خاصی اثر و سوخ پیدا کیا تھا۔

اس دوران امریکہ نے پاکستان یو اے ای’ اور سعود حکام کے ذریعے بارہا طالبان سے کئی مرتبہ استدعا کی کہ وہ القاعدہ سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن ملا عمر کی رجیم بلکل نہیں مانی اور اس نے اپنا اور افغانستان کا بڑا نقصان کردیا’ جب القائدہ کے 19 ہائی جیکروں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ‘ پینٹا گون کو نشانہ بنایا تب امریکہ آپے سے باھر ہوگیا اور اس نے اتحادیوں کے ساتھ ملکر طالبان کی رجیم کو ملیا میٹ کردیا، جب ‘طالبان حکمت عملی کے تحت پسپا ہوئے پاکستان اور افغانستان کے معاشرے میں ضم ہوگئے القاعدہ کے الزرقاوی عراق کو نکل گئے، شیخ اسامہ اپنے اہم ساتھیوں کے ساتھ طورا بورا کی پہاڑوں کی طرف نکلے تو امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ایجنسیوں کے نشانے پر آگئے۔

ریڈیو فریکونسی پکڑی گئی، کئی ہزار ٹن بارودی مواد پھینگا گیا گوکہ القاعد کے 12 مرکزی لیڈران مارے گئے لیکن شیخ اسامہ طورا بورا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے کہا جاتاہے کہ پہلے کنڑ اور اس کے بعد وہ قبائلی علاقوں میں گئے پھر پاکستانی ایجنسی کی مدد سے ایبٹ آباد چلے گئے غالبا یہ وقت 2006 بتایا جاتاہے۔

سی آئی اے کئی سالوں کی محنت کے بعد اسامہ کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوئی، 2011 کو شیخ اسامہ کو امریکن اسپیشل فورس نے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا ‘امریکی صدر نے اسے تاریخی کامیابی قرار دیا اور 2014 کو نیٹو نے افغان مشن ختم کی اور افغان طالبان سے مذاکرات شروع کئے انہیں مذید قوی بناکر 2018 کو ایک ایگریمنٹ پر دستخط کرکے انہیں افٖغانستان کا غیر اعلانیہ طاقت تسلیم کیا جبکہ طالبان نے بیس سال بعد وہی کام کیا جو پہلے دن بھی ہوسکتا تھا یعنی القاعد کو افغانستان کی سرزمیں میں پنپنے نہ دینا۔ اگرچہ امریکن انخلا کے دوران طالبان نے ملک کی حکومت بزور شمشیر حاصل کی لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کیا القاعدہ افغان سرزمیں کو استعمال نہیں کریگی؟ کیا افغان طالبان اپنے نظریاتی بھائی ایمن الظواہری ‘ سیف العدل کیلئے دروازے بند کرینگے؟ ان تمام سوالوں کا جواب فی الحال نہیں میں ہے جبکہ ان کا جواب آنے والا وقت ہی دیگا، اگر چہ القاعد اب ُاس طرح ایک مرکزیت میں نہیں لوکلائز ہوگیا ہے لیکن القائدہ کا خطرہ یقینی طورپر ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ جب تک امریکہ مشرق وسطی میں موجود ہے اس وقت تک القاعدہ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کریگی اس کا ایجنڈا وہی ہے جو شیخ اسامہ کے وقت تھا تاہم اب القاعدہ کے برانڈ کی کئی فرنچائز کھل چکے ہیں جیسے القائدہ برصغیر’ صومالیہ میں الشباب عراق اور شام میں خراس الدیں مالی میں نصرت الاسلام شامل ہیں ‘ کیا القاعدہ کی لیڈرشپ خاموشی کے ساتھ اپنے بین ال اقوامی جہادی برانڈ کو جاری رکھے گی یا لوکل سطح پر پھیل کر جہاد کریگی اس کا جواب فی الحال ہمارے پاس نہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں