افغانستان میں طالبان نے گذشتہ چند روز میں ایسے اقدامات کیے ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنی 90 کی دہائی میں قائم کی گئی سخت گیر طرز حکومت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کو تعلیم سے روک دیا گیا ہے۔ رواں ماہ طالبان نے چھٹی کلاس سے آگے لڑکیوں کو سکول بھیجنے کا اپنا عہد توڑ دیا اور دنیا کو حیران کر دیا۔
خواتین کو محرم کے بغیر سفر سے منع کر دیا گیا ہے۔ خواتین اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ دنوں کے اندر پبلک پارکس جانے کی اجازت ہے اور یونیورسٹی میں طلبہ موبائل فون استعمال نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ طالبان نے انٹرنیشنل میڈیا کو افغانستان میں کام کرنے سے روک دیا ہے اور اسی طرح غیر ملکی ڈراموں پر بھی پابندی ہے۔
گذشتہ برس طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری کو تشویش ہے کہ وہ اپنے گذشتہ دور حکومت کی طرح سخت قوانین نافذ کریں گے۔
پیر کو طالبان حکومتی دفاتر کے باہر کھڑے ہو گئے اور روایتی پگڑی نہ پہننے اور داڑھی نہ رکھنے پر مرد ملازمین کو گھر بھیج دیا۔
ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ دوبارہ کام پر آ سکیں گے یا نہیں۔
طالبان کے سینیئر عہدیدار اور طالبان لیڈرشپ سے واقف افغانوں کا کہنا ہے کہ قندھار میں تین دن قبل کچھ فیصلے اور اعلانات کیے گئے۔
ان کے مطابق یہ اعلانات طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کے مطالبے پر کیے گئے جو ملک کو نوے کی دہائی میں لے جانا چاہتے ہیں جب طالبان نے خواتین کو تعلیم اور پبلک مقامات پر جانے سے روکا، موسیقی اور ٹی وی سمیت بہت سے کھیلوں پر پابندی لگائی۔
سابق افغان حکومت میں بطور مشیر کام کرنے والے طارق فرہادی نے کہا کہ ’نوجوان طالبان کچھ اعلانات سے متفق نہیں ہیں، لیکن وہ بڑوں کے فیصلے سے انحراف نہیں کرنا چاہتے۔‘