اسلام آباد میں بلوچ طلبا پر تشدد نوآبادیاتی نفسیات کا اظہار ہے۔ بی این ایم

322

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں اسلام آباد میں بلوچ طلبا پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلبا پر تشدد نوآبادیاتی نفیسات کا اظہار ہے، کیونکہ بلوچ جدوجہد نے ہر میدان میں پاکستانی جارحیت کو قربانی اور بلند حوصلگی سے شکست دی ہے۔ پاکستان نے ظلم و سفاکیت کے تمام حربے آزمائے ہیں لیکن پاکستان بلوچ قومی حوصلے کو شکست نہیں دے سکی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد میں جاری احتجاج حفیظ بلوچ کی بازیابی کیلئے ہے جسے خضدار سے پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا تھا۔ اس واقعے کے چشم دید گواہ موجود ہیں کہ انہیں میجر مرتضیٰ نامی افسر نے حراست میں لیا تھا۔ اس کے باوجود حفیظ بلوچ کو مسلسل گمشدہ رکھنا میجر نوید کی مثال دُہرانے کی کوشش ہے جس نے دالبندین سے حفیظ اللہ نامی بلوچ کو اغوا کرکے سات ملین تاوان کی رقم حاصل کی اور ثبوتوں کے باوجود حفیظ اللہ بلوچ کو دوران حراست قتل کرکے شہید کیا گیا۔ میجر نوید کو کبھی بھی قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ اسی طرح ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ خالد جنسی زیادتی میں براہ راست ملوث کیپٹن حماد کو بھی استثیٰ دیا گیا کیونکہ بلوچوں پر مظالم ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد یا پنجاب میں بلوچ طلبا پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہاں پولیس تشدد کے ساتھ مقامی طلباء تنظیموں اور خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچوں کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں نت نئے آزمائش آزمائے گئے ہیں۔ وہاں شہید شہداد اور شہید میجر نورا کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا گیا اور انہوں نے بلوچی جذبہ اور ”بیر“ کیلئے قومی آزادی کی مسلح تنظیموں میں جگہ بنا کر جدوجہد کی۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر خفیہ اداروں نے پنجاب کے کئی تعلیمی اداروں میں “پروفائلنگ“ کرکے بلوچ طلبا کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا ہے۔ جب وہ اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی بازیابی کیلئے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے تو پہلے ان کی کیمپ کا خیمہ اکھاڑ دیا گیا اور بعد میں ان پر بہیمانہ طاقت کا استعمال کیا گیا جس سے کئی طلبا شدید زخمی ہوگئے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ پنجاب میں بلوچ طلبا پر تشدد اور وہاں میڈیا اور اکثریتی عوام کی خاموشی نے یہ ثبوت دیا ہے کہ عام عوام بلوچ قوم پر تشدد کی ریاستی بیانیہ کے ساتھ متفق ہے۔ سول سوسائٹی کے چند افراد اور چند صحافیوں نے اپنی ضمیر کی آواز کے مطابق بلوچ طلبا پر تشدد کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو نوآبادیاتی نظام تعليم رائج تھا، اس پر قدغنیں ہیں۔ تعلیمی اداروں کو فوجی کیمپوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارے سے زیادہ اور یک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہاں بھی طلبا و طالبات اپنے ساتھیوں صفی االلہ اور سہیل بلوچ کی بازیابی کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ سات دہائیوں سے بلوچوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، وہ حاکم اور محکوم یا غلام اور آقا کی اصل تعریف کا عملی شکل ہے۔ اسلام آباد میں طلبا کے پر امن احتجاجی مظاہرے پر لاٹھی چارج اور کئی طلبا کا زخمی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچوں کیلئے نہ صرف تعلیم کے دروازے بند کئے گئے ہیں بلکہ انہیں کسی بھی جائز مطالبے پر آواز اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔