آواران کے اکلوتے بند لائبریری کا معمہ
تحریر: نصیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
2018 میں اس لائبریری کے لئے 99 لاکھ منظور ہوئے تھے۔ لائبریری کی تعمیراتی کام 2020 کو مکمل ہوا، اس دن سے لیکر آج تک لائبریری تالہ بندی کا شکار ہے۔ بی ایس او پچار پچھلے دس دنوں سے لائبریری بحالی مہم چلارہا ہے، مہم، بند لائبریری کے سامنے چٹائی بچھاکر اسڈی سرکل لگانے کے صورت میں چلایا جارہا ہے۔
لائبریری شہید آدم خان کے نام سے منسوب ہے جبکہ سرکاری کاغذات میں آواران ٹاون لائبریری شہید عبدالکریم پبلک لائبریری کے نام سے منسوب ہے۔ چونکہ شہید آدم خان پبلک لائبریری تحصیل جھاو میں ہے اور اس کے لئے فنڈز کی منظور بھی دی گئی ہے۔ لہذا اگر انتظامیہ خوابِ خرگوش سے بیدار ہوا تو پہلا کام انہیں یہ کرنا چاہئے کہ لائبریری کے پیشانی سے شہید آدم خان پبلک لائبریری کا نام ہٹا کر شہید عبدالکریم لائبریری لکھ دینا چاہئے۔ کئی بار لائبریری بحالی کے متعلق ڈی سی آواران جمیل بلوچ صاحب سے بات ہوئی ہے، وہ بس ایک ہفتے کی نوید سناتے رہے ہیں جبکہ اب 4 مہینے مکمل ہونے کو ہیں لیکن کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا، ہاں البتہ اب پوچھنے پر جناب کہتے ہیں فنڈز کی کمی کے باعث لائبریری کی بحالی عمل میں نہیں لایا جارہا ہے۔ کچھ باتیں تو ڈی سی صاحب نے ایسی کہیں ہیں میں سمجھتا ہوں وہ باتیں ڈی سی صاحب کے اپنے کہے ہوئے نہیں ہیں ، وہ باتیں زبردستی تھونپ دی گئی ہیں۔ بھلا ایک سی ایس پی آفیسر تعلیم دوست، تعلیم کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے؟ ہاں ایک ان پڑھ جاہل اور مسلط کردہ لیڈر ہی ایسے سوچ اپنا سکتاہے۔
کسی بھی ڈسٹرکٹ کے آفیسراں اتنے سست نہیں جنتے آواران کے ہیں۔ سیاسی رکاوٹیں وہاں بھی ہیں، ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ وہاں کے آفیسران پڑھے لکھے ہیں۔ اپنے دلائل سے لیڈران کو قائل کرتے ہیں جبکہ یہاں اسے گستاخی مانا جاتا ہے۔ معلوم نہیں آواران میں کب تبدیلی آئے گی؟ لیکن میں ذاتی طور پر تین مہینے والی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ سسٹم کو تبدیل ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ لائبریری کے بحالی کو لیکر ایک احتجاج کیا گیا اور یہ احتجاج پچھلے دو سال سے ہورہی ہے، لیکن انتظامیہ کے کان تک جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک سال پہلے شہید آدم جان لائبریری جو کہ دراصل شہید عبدالکریم لائبریری ہے اس کے لئے باپ پارٹی کے سینئر رہنما و ضلع آواران کے سابق ضلعی چیئرمین نصیر بزنجو نے لائبریری کے دورے پر 15 لاکھ کا اعلان کیا تھا ان رقوم کا اب تک کچھ پتا نہیں چلا کہ یہ کہاں گئے؟ لائبریری کے بحالی کے لئے ان رقوم کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ آیا یہ محض ایک اعلان تھا یا رقم کی ادائیگی بھی ہوئی ہے؟ یا پھر تیار شدہ لائبریری کے فرنیچر کے لئے 15 لاکھ کافی نہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو 15 لاکھ کا جو اعلان ہوا تھا وہ کہاں ہیں؟ کیوں لائبریری کے لئے استعمال میں نہیں لائے جارہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض دکھاوے کے لئے ایک اعلان تھا۔ کیونکہ ڈی سی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ میر صاحب کے اعلان کئے گئے رقوم نوش کرجائیں۔ جہاں تک ڈی سی جمیل کا سوال ہے “اس کے سامنے تو نوٹوں کا بریف کیس رکھ دیں جمیل صاحب سادگی کا مظاہرہ کرکے کہیں گے کوئی بریف کیس بھول گیا ہوگا چلیں اپنے پاس رکھ لیں گے تاکہ جب اسے یاد آجائے اور طلب کرے تو فوری دے دیں گے” یعنی بریف کیس رکھا ہی نہیں ہوگا تو بھولے گا کیسے! “صبح کا بھولا شام گھر کو آئی یعنی بھولا بھی تو نہیں۔
آواران کے چند متحرک دوستوں سے بات کی کہ اقدامات ہوتے نظر آرہے ہیں؟ کہتے ہیں جس طرح نواز شریف کہتے کہتے تھک گئے کہ “مجھے کیوں نکالا” آج تک اس کے سوال کا جواب نہیں دیاگیا۔ اسی طرح ہم جب بھی ڈی سی صاحب کو کہتے ہیں کہ لائبریری کیوں بحال نہیں کیا جارہا تو بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں اور کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتاتے ان کے باتوں سے سیاسی رکاوٹوں کی بو آتی ہے۔
بہرحال ایک بار پھر ہم پوچھتے ہیں یہ سوال متعلق حکام سے معمول کی طرح جواب کی توقع نہیں لیکن اپنا سوال دل میں رکھ بھی نہیں سکتے، خاص طور پر اس وقت جب سوال بچوں کے مستقبل کا ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں