کہانی ۔ سفر خان بلوچ ( آسگال)

1687

کہانی

تحریر: سفرخان بلوچ ( آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

دو فروری کی یخ بستہ رات تھی، چاروں اطراف خاموشی کا ہُو چھایا ہوا تھا، شمال سے چلنی والی ہواوؐں کی شدت زور پکڑتی جارہی تھی، جیسے جیسے گھڑی کی سوئی اپنے مدار پورا کرتا جارہا تھا، ویسے ویسے سردی کی شدت بڑھتی جارہی تھی، شب کے اولی پہر کو شروع ہوئے ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے، ہر کوئی اپنے گھر میں گرم بستروں میں لپٹا یا ہیٹروں کے سامنے بیٹھا اس سرد رات کو گزارنے کی جستجو میں لگا ہوا تھا۔

رات آٹھ بجے کے قریب دو گاڑیاں خاموشی کے سینے کو چیرتے ہوئے گلی اور کوچوں سے ہوتے ہوئے ایک جگہ آ کر رک جاتے ہیں، کار گاڑی سے چھ بندوق بردار مسلح افراد اتر کر ٹرک گاڑی کے پاس جاکر گاڑی میں سوار نوجوان کو گلے لگا کر بولتے ہیں “آگے کا راستہ کلیئر ہے ہم اپنی پوزیشنیں سنبھالتے ہیں اور آپ اپنی اور اسی دوران سب ایک ایک کرکے ٹرک گاڑی میں سوار نوجوان کو گلے لگا کر ایک ساتھ بولتے ہیں “رخصت اف اوارن سنگت”

رات آٹھ بج کر بیس منٹ پر چھ مسلح افراد کار گاڑی سے اتر کر تیزگامی سے دکانوں کے چھتوں پر چڑھ کر مستعد ہو جاتے ہیں۔

رات آٹھ بج کر پچیس منٹ پر فوجی کیمپ کے سامنے زور دار دھماکہ ہوتا ہے، اسی دھماکے کے فوراً بعد اندھا دھند فائرنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی فائرنگ کے دوران کمانڈر اپنے چھ ساتھیوں کو اشارہ کرتا ہے کہ وہ دکانوں کے چھتوں سے کود کر کیمپ کے اندر داخل ہوجائیں۔

کہانی اس وقت سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اسے مجید برگیڈ کا حصہ بننا ہے، اس نے کافی سوچ سمجھ کے بعد ایک دن مجید برگیڈ کے کمانڈر سے رابطہ کیا اور اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، جواب میں اسے مزید وقت دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلہ کے بارے میں مزید سوچ بچار کرلے اور جو فیصلہ ہو اس سے آگاہ کرے، تین ماہ تک مزید سوچنے کے بعد اس نے ایک بار پھر رابطہ کیا اسے پھر مزید سوچنے کے لئے کہا گیا اور دوسری بار چھ ماہ مزیداسےسوچنے کا موقع دیا گیا بالآخر ایک سال گزرنے کے بعد اس کے فیصلے کو قبول کیا گیا۔

ایک دن موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، اس کے سامنے ایک نامعلوم نمبر ہوتاہے، اسے کہا جاتا ہے کہ فلاں دن فلاں مقام پر پہنچنا ہوگا اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب میرے لئے بلاوا آیا ہے کیونکہ اسے ایک دن پہلے کسی کے ذریعے یہ پیغام پہنچ چکا تھا کہ آپ کو کوئی فون کرنے والا ہے۔

وہ دیئے ہوئے پتے اور مقررہ وقت پر پہنچ جاتا ہے، وہاں پہنچنے پر کوئی نظر نہیں آتا، پندرہ بیس منٹ کے انتظار کے بعد وہاں ایک نقاب پوش نوجوان پہنچ جاتا ہے اور اس کے کوڈ نام سے اس سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ سفر میں آپ ہو؟ جواب میں ہاں ملتے ہی وہ دونوں وہاں سے نکل جاتے ہیں، ایک دن موٹر سائیکل پہ سفر کرکے جب وہ ایک مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو اس سے کہا جاتا ہے اب یہاں سے پیدل سفر شروع ہوجاتا ہے، وہ اس وقت ابھی ابھی شہر سے آیا ہوا ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ مضبوط اور توانا تھا اس کے حوصلے بلند تھے وہاں سے پیدل نکل کر ایک پہاڑ سے اتر کر دوسرے پہ چڑھ جانا مگر اس کے باوجود وہ انہی دوستوں کے ساتھ اس طرح چل رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بچپن سے انہی پہاڑوں میں پلا بڑھا ہے۔

ایک دن اور ایک رات کے پیدل مسافت کے بعد وہ صبح دس بجے پہاڑوں کے بیچ کسی کلگ (کجھور کے باغات) میں پہنچ جاتے ہیں، اس کے ساتھی اس کو کہتےہیں آپ یہاں آرام کریں اور وہ جاکر پہلے سے چھپائے ہوئے واکی ٹاکی لاکر پہاڑی پہ چڑھ کر کیمپ کمان سے رابطہ کرکے اس کو بتاتے ہیں کہ ہم آئے ہوئے ہیں۔ وہ دوست ہمارے ساتھ ہے، جواب میں کہا جاتا ہے ٹھیک ہے آپ دوست سے کہیں کہ وہیں رکے اور آرام کرے اور آپ لوگ واپس جائیں اس دوست کو لینے دوسرے دوست آرہے ہیں۔

تین بج کر پندرہ منٹ پہ دو بندوق بردار لوگ وہاں پہنچ جاتے ہیں سلام دعا کے بعد اس کو چلنے کے لئے کہا جاتا ہے وہ ان سے پاسکوڈ مانگتا ہے جواب میں اس کو پاسکوڈ دیا جاتا ہے، پاسکوڈ ،،سنگت زندگ بووگ ءِ راہ ھمیش انت،، ہوتا ہے۔

وہاں سے نکل کر پہاڑوں کے بیچوں بیچ جاتے ہوئے کبھی کسی اونچے پہاڑی سے اتر کر اور کسی پہ چڑھ کر وہ چلتے چلتے رات ساڑھے سات بجے اپنے اوتاک (کیمپ) کے حدود میں پہنچ جاتے ہیں اور راستے پر پہلے گھاٹ میں بیٹھے سرمچار زور سے آواز دے کر ان سے مخاطب ہوتا ہے کون؟ جواب میں وہ آج کا رکھا ہوا کوڈ بولتے ہیں جو اس دوست کو دیئے ہوئے پاسکوڈ سے بالکل مختلف ہوتا ہے، اوتاگ کا پاسکوڈ ،،کوکرت شہد بنت ،، ہوتا ہے۔

پاسکوڈ ملتے ہی گھاٹ واکی ٹاکی کے ذریعے کیمپ کے اندر اطلاع دیتا ہے کہ دوست آرہے ہیں، ان کے سامنے دو دوست آجاتے ہیں اور ان کو سلام دعا کے بعد اس جگہ پہ لےجایا جاتا ہے جہاں پہلے سے کمانڈر اور باقی دوست ہر رات بیٹھ کر ملکی اور غیر ملکی خبریں سنتے ہیں۔

وہ پہلے آٹھ بجے بی بی سی اردو کے ریڈیو پروگرام سیربین کو سنتے تھے، جب سے سیربین بند ہوچکا ہے تو معلومات حاصل کرنے کے لیے روزانہ ایک دوست کی ذمہ داری ہےکہ وہ تین چار گھنٹے کی مسافت طے کرکے نیٹورک جاکر تمام ملکی اور غیر ملکی خبروں کو یکجا کرکے رات آٹھ بجے سے پہلے کیمپ پہنچ جائے۔ اور اس دوران سب یکجاہ ہوکر تمام خبریں خاموشی سے سنتے ہیں اوراسی دوران کسی کو نہ بات کرنے کی اجازت ہے نہ کچھ اور کرنے کی مگر جب وہ یہاں پہنچ چکے تھے تو آدھا گھنٹہ رہ چکا تھا، دوستوں سے بلوچی حال احوال بھی کیا گیا اور اتنے میں انہیں سلیمانی چائے بھی پیش کیا گیا، اس کے بعد آٹھ بجتے ہی خبروں کا وقت ہوا اور ایک گھنٹے تک تمام ملکی اور غیر ملکی خبروں حتیٰ کہ اسپورٹس اور فلمی دنیا کے حوالے سے آج کے جتنے نیوز تھے وہ سنائے گئے ایک گھنٹے بعد ذمہ دار نے نئے آنے والے دوست کو بستر دے کر سونے کے لئے جگہ مہیا کیا اور اس کے بعد سب سونے چلے گئے۔

صبح چھ بجے سورج کے نکلنے سے پہلے انہیں اٹھایا گیا، ایک ایک کرکے سب اٹھ گئے، اٹھنے کے بعد سب آکر دیوان جاہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے، سب کے آنے سے پہلے وہاں پہلے ایک قدآور شخص موجود تھا، یہ کیمپ صرف مجید بریگیڈ یونٹ کا تھا کیونکہ یہاں موجود سب لوگ مجید بریگیڈ یونٹ کے ممبر تھے، جن سولہ لوگوں کو آنے والے مشن کے لئے چنا گیا تھا وہ سب پہلے سے وہاں موجود تھے ان سب کے نام ایک ایک کرکے اس قد آور شخص نے لینا شروع کیا اور اس طرح سولہ لوگوں ایک ساتھ جمع ہوگئے ان سولہ لوگوں کے علاوہ مجید برگیڈ کے دیگر لوگ بھی وہاں موجود تھے جن کی اس مشن میں اپنی اپنی ذمہ داریاں تھیں۔

بعد میں ان سولہ لوگوں کو لے کر وہ اس مقام پہ پہنچا، جہاں انہیں آنے والے مشن کے لئے تربیت دینا تھا اور یہاں سے ان کا ٹریننگ شروع ہوجاتا ہے، جوانتہائی سخت اور مشکل تھا، جو ایک پروفیشنل کمانڈو کو ٹریننگ میں کروایا جاتا ہے ، وہ سب ٹریننگ ان کو دیا گیا چھ ماہ تک مسلسل ٹریننگ کے بعد وہ سولہ کے سولہ لوگ اپنے ٹریننگ میں پاس ہوگئے۔

اس کے بعد تمام لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں آنے والے مشن کی تیاری کے لئے سونپی گئیں اور آخری حکم کے لئے انتظار کرنے کو کہا گیا۔

چھ سات ماہ بعد آخری بلاوا آگیا اور ان کو ٹارگٹ سونپے گئے، ٹارگٹ تھے نوشکی اور پنجگور فوجی ہیڈکواٹر سولہ لوگوں کو دو گروپ میں تشکیل دیا گیا، ان میں سے نوشکی مشن کا ذمہ دار ان میں سے ایک نوجوان ریاست اور پنجگور مشن کا ذمہ دار ان میں سے نوجوان زبیر بلوچ کو دیا گیا۔ یہ ذمہ داریاں دوران ٹریننگ اور اس سے پہلے مختلف محاذوں پہ دیئے گئے کار کردگی کی وجہ سے دی گئی تھی، جب تمام چیزیں فائنل ہوگئے، مشن پہ جانے کے لئے حکم کا انتظار تھا، اسی دوران سب کے چہرے پہ اس طرح خوشی کی جھلکیاں نظر آنے لگیں جیسے سو سالوں سے ایک پیاسے شخص کو ایک دم پانی مل جائے۔

جب آخری حکم آگیا تو حکمت عملی کے تحت تمام لوگوں کو ایک ایک کرکے الگ الگ راستوں سے ان کے ٹارگٹ کے قریبی علاقوں میں پہنچانے کا کام شروع ہوجاتا ہے، یہ کام پندرہ سے بیس دن میں مکمل ہوجاتا ہے ان کے وہاں پہنچنے پرمجید بریگیڈ یونٹ کی طرف سے ان کے مشن کے لئے جتنی بھی ضروریات ہیں ان سب کو پہلے سے پورا کیا گیا تھا۔

اب ان کے جانے کا دن آ چکا تھا، آج رات انہیں حملہ کرنا تھا، ان کو سردیوں کے یہ دن بھی اس طرح لگ رہے تھے، جیسے وہ بائیس جولائی سے بھی لمبی ہو، وہ ایک گھنٹے میں ساٹھ بار گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے، سب کے چہرے پہ ایک طرح کی بے چینی تھی کہ یہ دن کب اختتام کو پہنچ جائے اور وہ اپنے ٹارگٹ کی جانب نکل جائیں۔

انتظار کی گھڑی اس وقت ختم ہوئیں، جب ان سے کہا گیا سب اپنے اپنے بندوق اور گولیاں آخری بار دیکھ لیں اور دیگر جتنے بھی سامان ہیں انہیں تسلی سے چیک کرلیں کیونکہ اب نکلنے کا وقت آ پہنچ چکا تھا، سب جلدی جلدی سے اپنے سامان کو دیکھنے لگے جو انہیں دیئے گئے تھے، ان میں فوجی ساز و سامان کے علاوہ کھانے کے لئے جو اشیاء تھے سب کو ایک ایک کرکے تسلی سے دیکھنے لگے۔

اب وہ مغرب ہونے کے انتظار میں تھے، مغرب قریب آتے ہی وہ اپنے ٹھکانے سے نکل گئے، جب سورج مکمل ڈوب گیا اور مغرب کی نماز ختم ہوئی تو وہ شہر کے اندر داخل ہوگئے، جب وہ کسی مسجد کے قریب سے گزرے تو نمازی ابھی مسجد سے نکل رہے تھے اور ہر کوئی سردی سے بیزار ہوکر جلدی جلدی میں اپنے گھر جانے کی کوشش میں تھے تاکہ وہ کسی ہیٹر یا کسی اور چیز سے خود کو گرم رکھیں مگر وہ عاشق سردی کی پرواہ کئے بغیر جارہے تھے جہاں ان لوگوں کا آخری منزل تھا۔

ٹارگٹ میں کچھ ہی منٹوں کی مسافت باقی تھی۔ جسے وہ بیتابی سے طے کررہے تھے۔

کیمپ کے اندر گولیوں کی گھن گرج اور راہداری پہ ہونے والے دھماکے کی وجہ سے چاروں اطراف دھواں ہی دھواں تھا، دوسری طرف صرف رونے کی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، وہ ایک دوسرے کو کور دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کچھ ہی منٹوں کے اندر وہ کیمپ کے بڑے حصہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، اسی طرح نوشکی میں بھی جنگ چھڑ چکا تھا اور وہ گیٹ پہ دھماکہ کرکے کیمپ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اسی دوران یونٹ کمانڈ نے اپنے بیگ سے سیٹلائیٹ فون نکال کر اپنے ذمہ دارکو فون کرکے بتایا ہم کیمپ کے اندر داخل ہوچکے ہیں اور آگے پیش قدمی کر رہے ہیں، اب دونوں علاقے میدان جنگ بن چکے تھے چاروں اطراف گولیوں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، پوری رات وہ اسی طرح جنگ کرتے رہے اور صبح ہونے تک وہ دونوں کیمپوں کے اندر مزید ایک بڑے حصے پرقبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

دوسری جانب دشمن حیران ہوچکا تھا کہ کیا ہورہا ہے، جب تک وہ کچھ سمجھ پاتے کہ کیا ہورہا ہے وہ بڑی تعداد میں فوجی اہلکاروں کو مارکر اندر داخل ہوئے تھے کیونکہ فوج کے لئے یہ تو حیران کردینے والی چیزتھی کیونکہ وہ اس وقت یہ توقع نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے ساتھ اس طرح کچھ ہوگا۔

جب تک فوج کچھ سمجھ پاتا کہ کیا ہورہا ہے صبح ہوچکا تھا دوسری طرف وہ مضبوط پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے۔ صبح ہوتے ہی فوجی اہلکاروں نے بڑی تعداد میں ان کے جانب پیش قدمی شروع کی جوں ہی وہ ان کے رینج میں آ پہنچے تو وہ ان پہ قہر بن کر ٹوٹ پڑے، ایک دم گولیوں اور دستی بموں اور دیگر اسلحہ سے فوجیوں پہ حملہ آور ہوئے بڑی تعداد میں فوجی اہلکار مارے گئے، کچھ میدان چھوڑ کر بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور مرنے والے فوجی اہلکاروں کی لاشیں وہیں پڑے رہے اور ایک دم گولیوں کی گھن گرج خاموش ہوگئی۔ اور اس کے بعد وہ ہنسنا شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں بھاگ گئے بھاگ گئے۔

اس کے بعد ہیلی کاپٹروں کی آمد شروع ہوجاتا ہے، وہ پیدل فوجی دستوں کو فضائی کور دے کر ان کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک بار پھر وہ فوجیوں پہ حملہ آور ہوکر ان پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

دوسری جانب ہیلی کاپٹروں کی شیلنک اور بمباری کے باوجود فوجی اہلکار ایک بار پھر بڑی تعداد میں مارے جاتے ہیں اور باقی فوجی اہلکار اپنے مرے ہوئے فوجیوں کی لاشوں کو چھوڑ کر پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ اب یہاں سے شروع ہوجاتا ہے ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور بمباری مگر ناکامی کے سوائے انہیں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

پورا دن دونوں کیمپوں میں جنگ اسی طرح چلتا ہے اور دوسری جانب بیٹھا ہوا مجید برگیڈ کا کمانڈر فون پہ ان کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے پہلے دن کے اختتام تک نوشکی میں مجید برگیڈ کے تمام فدائی شہید ہوتے ہیں مگر پنجگور میں اب بھی وہ چٹان کی طرح ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

دوسرے روز بھی پورا دن اور رات اسی طرح جنگ چلتا رہتا ہے، اوپر ہیلی کاپٹر زمین پہ فوجی و ایس ایس جی کمانڈوز سب اپنے بےبسی کا منظر اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، وہ اب بھی اس کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہوتے ہیں، فوجی اہلکاروں کی بےبسی کی آخری حد اس وقت ہوجاتا ہے، جب وہ اپنے ہی کیمپ پہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شیلنگ اور بمباری شروع کردیتے ہیں اس کے باوجود انہیں دوسرے دن بھی ناکامی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔

تیسرے دن کی شروعات شدید نوعیت کے جھڑپ سے ہوجاتا ہے اوپر ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور زمین پہ ایس ایس جی کمانڈو اور بس گولیوں اور بموں کی آوازیں، مگر اس کے باوجود وہ ڈٹ کر لڑرہے تھے، اس وقت ان چھ لوگوں کے بیچ ہزاروں کی تعداد میں فوجی اہلکار بےبس نظر آرہے تھے اور آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے مگر ان کے نصیب میں لاشوں کے سوا کچھ نہیں آرہا تھا اور سب سے بڑھ کر وہ فوج کو اس کے محفوظ مقام پہ گھس کر مارہے تھے، ایٹمی ملک اب بےبس ہوچکا تھا اور بلوچ تاریخ میں نفسک اور گوگ پروش کے جنگوں کی تاریخ ایک بار پھر لکھی جارہی تھی۔

دوپہر کے وقت تین چار ہیلی کاپٹروں نے ایک بار پھر ایک دم اپنے ہی کیمپ پہ بےدریغ اور لاپرواہی سے شیلنگ اور بم بمباری شروع کردی جو عصر تک جاری رہا، اور اس طرح ان لوگوں نے جاتے جاتے تاریخ رقم کردی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں