کوئٹہ میں احتجاج، منفی ہھتکنڈوں سے پرامن جدوجہد سے دست بردار نہیں ہونگے۔ مقررین

384

‏وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے پاداش میں چیئرمین نصر اللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ ، نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ، سیما بلوچ, بی این پی کے رہنما موسی بلوچ، غلام مری نیشنل پارٹی کے نصیراحمد شاہوانی، بی ایس او کے ڈاکٹر ثمرین، بالاچ قادر اور دیگر پر انتظامیہ کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ اور ریلی نکالی گئی.

اس احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ، لاپتہ فیاض بلوچ کی زوجہ، ذاکر مجید کی والدہ، لاپتہ رشید بلوچ اور آصف بلوچ کی بہن سائرہ بلوچ، لاپتہ کفایت اللہ کی زوجہ، لاپتہ نعمت اللہ کے بھائی، سیاسی رہنماء رمضان ہزارہ، ریڈ ورکر فرنٹ کے کریم پرہار، بیبرگ بلوچ ، حوران بلوچ ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی رہنماء ثناء آزاد بلوچ سمیت دیگر نے اپنے خیالات کے اظہار کیا۔

احتجاجی مظاہرے سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب حکومت اور انتظامیہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انہیں مفرور قرار دے رہے ہیں تاکہ انہیں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کرنے سے روکا جائے جو پرامن آوازوں پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے منفی ہھتکنڈوں سے وہ اپنے پرامن جہدوجد سے دست بردار نہیں ہونگے۔ انہوں نے وزیراعلی بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ اس ایف آئی آر ک نوٹس لے اور اس کو ختم کرنے کے لیے اپنے آئینی اختیارات سے بلاجواز درج ایف آئی آر کو ختم کرے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ پھر بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں تیزی آ گئی ہے جو کہ تشویش ناک امر ہے، حالیہ کچھ دنوں سے 50 سے زیادہ بلوچ نوجوانون کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جس میں ابو دبئی سے حفیظ زہری، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ، منگوچر سے اسکول ٹیچر کفایت اللہ لانگو، پنجگور سے ملک میران سمیت کئی بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے.

خطاب میں مزید کہا گیا کہ وفاقی گورنمنٹ، لاپتہ افراد کیلئے بنایا گیا کمیشن سمیت عدالت عالیہ بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کو طفل تسلیوں کے سوائے اور کچھ نہیں دے سکا ہے، تمام ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ اس خطے میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اپنی نوعیت کا ایک سنگین مسئلہ اور ایک انسانی المیہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود بیس سالوں سے لوگوں کو لاپتہ کرکے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔

خطاب میں کہا گیا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پانچ دن کے پیدا ہونے والے بچوں کو لے کر سڑکون پر لاکر چیخ و پکار کرکے اپنے پیاروں کی بازیابی اور ان کے دیدار کیلئے صدائے دے رہے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ریاست سمیت کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔

مقررین نے مزید کہا کہ حالیہ نوشکی اور پنجگور حملوں کے بعد آرمی چیف نے بلوچستان میں طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا جو باعث تشویس ہے ہم آرمی چیف سے گزارش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال گریز کرے کیونکہ بلوچستان میں 72 سالوں سے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے اس کے باوجود بلوچستان کے حالات صحیح ہونے کے بجائے دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں اور بلوچستان کے لوگوں دلوں میں طاقت کے استعمال اور ماورائے اقدامات کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے جو بلوچستان اور ملک کے حق میں بہتر نہیں ہیں بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے حکمرانوں اور ملکی اداروں کے سربراہوں کو دانشمندانہ فیصلے کرنے ہونگے بلوچستان کے لوگوں کے احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں کا ازلہ کرنا ہوگا لاپتہ افراد کی بازیابی کو فوری طور یقینی بنانا ہوگا جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے ساتھ صوبے میں ماورائے اقدامات کا روک تھام کرنا ہوگا اور بلوچستان کے لوگوں کی آئین میں دئیے گئے حقوق کے احترام کرنا ہوگا اور انکے ساتھ ملکی آئین کے تحت برتاو کرنا ہوگا۔