کمزوریوں کا اعتراف ۔ سنگر بلوچ

1244

کمزوریوں کا اعتراف

سنگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حالیہ دو واقعات جس میں تقریبا 16 دوستوں کی شہادتیں واقع ہوئے، جس میں پہلا واقعہ 17 فروری کو بلیدہ میں پیش آیا تھا جس میں بی این اے سے تعلق رکھنے والے 6 دوستوں کی شہادتیں ہوئی تھیں جبکہ کل ایک اور واقعے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق دس ساتھیوں کی شہادت کا المناک واقعہ رونماء ہوا ہے گوکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی جنگ میں نقصان کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن ایک انقلابی ادارے میں ہر ایک واقع پر جامع تحقیقات اور کمزوری و خامیوں پر مشتمل ڈاکومنٹیشن ہونی چاہیے، جس کی ہمارے یہاں کوئی ترتیب اور کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ہی غلطی کے نتیجے میں ایک نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں گوریلا سرمچاروں کی شہادتوں کا المناک واقعات رونماء ہو رہے ہیں جو کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں اداراتی لیڈرشپ اور علاقائی زمہ داروں کی قابلیت و صلاحیت اور جدید جنگی طریقہ کار و حکمت عملیوں کی طرف سوالات اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔

گوکہ واقعات کا رونماء ہونا کوئی اچنھبے کی بات نہیں مگر کسی بھی جنگی و جدید انقلابی طریقہ کار سے آشناء ادارے کے یہاں ایک ہی طریقہ واردات پر ایک سے کہیں زیادہ واقعات کا رونماء ہونا المناک بات ہے۔ تحریک سے جڑے ہر گوریلا ادارے میں باقاعدہ ایک ایسی کمیٹی ہونی چاہیے جو کسی بھی واقع پر جامع تحقیقات اور ریسرچ کے بعد تنظیم کے سامنے واقع کی تمام غلطیوں اور خامیوں پر مرکزی لیڈرشپ کو ایک ہفتے کے اندر اندر آگاہ کریں اور مرکزی کونسل کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہفتے ہفتے کے اپنے تمام کیمپ کمانڈرز کو اس تحقیقات سے آگاہ کریں اور ساتھیوں کو سختی سے تنظیمی ڈسپلن کے ماتحت یہ غلطیاں کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کریں۔

مثال کے طور پر بلوچستان کے وسیع و عریض پہاڑی علاقوں میں آپ کے کیمپ کا پتہ دشمن کو کیسے لگ گیا، اس کے ہر پہلو پر غور سے جامع تحقیقات ہونا چاہیے، آیا موبائل ڈیواسز کے ذریعے یہ غلطی سرزد ہوئی، کسی نے مخبری کی، مطلب کتنے دن تک تنظیمی ساتھی اس کیمپ میں موجود تھے، اگر ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک انہوں نے کیمپ کی لوکیشن تبدیل نہیں کی تو کیوں نہیں کی، اگر نیٹ یا نیٹورک کیلئے دشمن کے آس پاس کے علاقوں میں آئے اس پر بھی سوالات ہونے چاہیے کہ رابطہ کی زمہ داری صرف ایک ساتھی لے سکتا ہے اس میں کیمپ کے تمام ساتھیوں کا کسی بھی نیٹورک میں آنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے، اگر کوئی علاقائی دوزواہ ہے تو انہیں کیمپ تک رسائی کیوں دی گئی ؟ کیا ہم دشمن کو ہلکا نہیں لے رہے ؟ کیا ہم بہت بڑی غلطی نہیں کر رہے ؟ حالیہ واقعات سے بالکل لگ رہا ہے کہ ہم میں بہت سی کمزوریاں ہیں جن کا اگر جلد از جلد ادراک کرتے ہوئے ان کا تدراک نہیں کیا گیا تو یہ سنگین نقصانات دینگے۔

16 ساتھیوں کی شہادت اور وہ بھی دشمن کی انٹیلی جنس بیڈ آپریشن میں بہت سی خامیوں کو آشکار کر رہے ہیں۔ میں کوئی گوریلا یا جنگی سپاہی نہیں کہ تنظیم کو جنگ اور انہیں رہنے سہنے گوریلا جنگ کرنے انہیں تمام وہ طریقہ بتاؤں کیونکہ ایک گوریلا کس طرح سروائیو کر رہا ہے اور کس طرح کر سکتا ہے کہ اس کا اندازہ صرف پہاڑوں پر موجود ایک سرمچار ہی کر سکتا ہے البتہ بطور ایک سیاسی کارکن کچھ بنیادی چیزوں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے لگ رہا ہے کہ ان پر بحث کرنی چاہیے۔

ہم نے بطور تحریک اب تک براہ راست دشمن سے لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں ابھی تک ہمارا طریقہ جنگ گوریلا ٹائپ ہے اس میں ہمیں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ سرمچار ساتھیوں کی جانیں بہت قیمتی ہیں کیونکہ انہی کو دشمن کی قہر کا مقابلہ کرنا آتا ہے ان کا کسی ایک دوست کی کمانڈر یا لیڈرشپ کی غلطی کی وجہ سے چلا جانا اجتماعی طور پر تحریک کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔

بطور ایک سیاسی کارکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی گوریلا تنظیم کو مندرجہ بالا چیزوں کا بہت خیال کرنا چاہیے اور ان کے بغیر وہ ایسے ہی نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے۔

بیک وقت زیادہ ساتھیوں کا ایک ہی جگہ بہت زیادہ وقت ٹھہرنا اور جہاں شہری دوست آتے جاتے ہوں وہاں پر دو دن یا پانچ دن رہنا بھی انتہائی خطرناک ہے۔

شہری ساتھیوں کا کیمپ میں آنا بہت بڑی غلطی ہے انہیں کسی بھی طرح سائیڈ یا مرکزی کیمپ تک رسائی نہیں ہونی چاہیے۔

ہر ایک کو موبائل و رابطہ کی پوری آزادی کسی بھی کیمپ کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے اکثر و بیشتر گوریلا ساتھیوں کے موبائل ٹریس ہوتے ہیں اور ان کا لوکیشن ریاست کو بہت آسانی سے مل جاتا ہے اس کی وجہ سے علاقائی جتنے بھی ساتھی ہوتے ہیں ان پر ریاست باآسانی پہنچ جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فون کال کا متبادل راستہ اختیار کیا جائے۔ اگر ایک کی حال حوال میں دس دن بھی لگ جائے مسئلہ نہیں مگر اس طرح وہ شہری دوست دس سال تک ان کیلئے مددگار ہو سکتا ہے۔ کیمپ کے ہر ایک ساتھی کو موبائل و ہر کسی کو فون کال کرنے کی سنگین غلطی کی وجہ سے اکثر آپریشن ہوتے ہیں اور بہت سے دوست ایک ساتھ شہید ہو جاتے ہیں۔

موٹر سائکل کے استعمال کی وجہ سے ریاست باآسانی تنظیمی ساتھیوں کے راستوں کا تعاقب کر لیتا ہے جس سے ساتھیوں کے نقل و حرکت کا دشمن کو پتا لگ جاتا ہے۔ کسی بھی کیمپ میں رہائش کرنے سے پہلے وہاں سے کسی ہنگامی حالات میں بھاگ نکلنے کا پہلے سے ہی تمام راستے تیار کرنے چاہیے اگر کوئی موومنٹ یا لشکر کشی کی اطلاع یا سرگرمی کا علم ہوا تو فورا وہاں سے نکلنے کا آسان راستہ ہونا چاہیے۔
ہر ایک واقعے پر انتہائی باریک اور جامع تحقیقات ڈاکومنٹیشن کی شکل میں مرکزی کونسل کو پہنچنا چاہیے تاکہ تنظیم کے قیادت کو نقصانات کی بنیادی وجوہات کا اندازہ ہو اور انہیں فوری طور پر تمام ساتھیوں کیلئے نئے احکامات جاری کرنا چاہیے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہماری لیڈرشپ میں موبائل ڈیواز جیسا خطرناک دشمن بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔

سخت گوریلا ڈسپلن تنظیم میں شامل ہونے کا پہلا شرط ہونا چاہیے۔ جب تک تنظیم میں سخت ترین جنگی ڈسپلن نہیں ہوگا ایسی لاپروہیاں ہوتی جائیں گی اور اس سے آوررال تحریک کو ہی نقصان ہوتا ہے۔ ایک سرمچار بھی انتہائی زیادہ قیمتی ہے۔ ایک طرف مجید بریگیڈ کے 16 فدائین نے جنگ کو ایک رخ دیا، تحریک کیلئے الگ راہئں متعین کی، دشمن کا مورال گرا دیا، دنیا تک بلوچ قومی جنگ کی شدت کی اندازہ پہنچایا، اپنی جنگی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا، دشمن کو سنگین قسم کے جانی و مالی نقصانات پہنچائے، قوم کا سر فخر سے اونچا کر دیا، بہادری و جوانمردی کی الگ تاریخ رقم کر دی، دشمن کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا۔ بلوچ قومی تحریک پر پاکستان و دنیا میں ایک الگ ڈیبیٹ شروع کروایا قوم کو الگ جزبات دیے۔ دشمن کی بہادری خاک میں ملا دی، ہر بلوچ کو نئے جزبے سے سرشار کیا۔ سنگ و سر کی مثال ہی الٹی کر دی۔ دوسری جانب 16 ساتھیوں کی ایسے حالات میں شہادت بہت ہی تکلیف دہ اور دشمن کے مورال کو بلند کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

میری زاتی رائے یہ ہے کہ ہماری غلطی و خامی کے بغیر دشمن کا کیمپ تک پہنچنا اور حملہ کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان اب ڈرون بھی استعمال کر رہا ہے۔ کسی بھی کھلے جگہ میں زیادہ ٹہرنا یا موبائل استعمال کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ بلوچ گوریلا قیادت کو حالیہ شہادتوں کے واقعات پر انتہائی باریک جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے آئندہ ہونے والے واقعات سے بچا جا سکیں۔ ان پہاڑوں کو اپنا سنگر بنانے کی ضرورت ہے یہاں سے دشمن کو کامیابی دینا بہت بڑی خامی ہے اور اس کا جلد از جلد تدراک ہونی چاہیے۔

غیر تربیت یافتہ گوریلا سرمچاروں کو سائیڈ کیمپس یا جنگی عمل کا حصہ بنانا بھی سنگین قسم کی غلطی ہے کیونکہ جنگ ایک آرٹ ہے اور جب تک ایک انسان ایک ڈسپلن سپاہی بن کر اس تربیت کو حاصل نہیں کرتا وہ ہمیشہ دشمن کیلئے ایک آسان ہدف بن سکتا ہے۔ بلوچ گوریلا لیڈرشپ چونکہ جنگی کیفیت و حالات سے مکمل طور پر مجھ سے بہت زیادہ آگاہ ہونگے انہیں چاہیے کہ کسی بھی قسم کی کامیابی سے خوش فہمی کا شکار ہوکر سنگین نقصانات اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ 16 سرمچار دشمن کیلئے کتنا بھیانک ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ پنجگور اور نوشکی میں ہمیں دیکھنے کو ملا اگر 16 سرمچار فدائی کی شکل میں چاہیں تو کوئٹہ کینٹ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی انتہائی وسیع کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ جہاز سے لیکر پارلیمنٹ تک کو بھی یرغمال بنا سکتے ہیں مگر 16 ساتھیوں کی اس طرح شہادت کسی بھی طور پر تحریک اور جدوجہد کے حق میں نہیں۔ ہر جنگی تنظیم کو اپنے ادارے میں ایک ایشی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو صرف تنظیم کے ہر چھوٹے بڑے کامی کو مرکزی قیادت کے سامنے بہترین آرگومبٹس کے ساتھ پیش کرے۔ انہیں صرف تنظیمی کامیوں پر نظر رکھنے کی زمہ داری دینی چاہیے۔ ایک ایسی بھی کمیٹی ہونی چاہیے جو دشمن کے ہر آپریشن پر جامع تحقیقات کرکے مرکزی قیادت کے سامنے دشمن کے تمام طریقہ واردات پر مرکزی قیادت کو آگاہ کرے تاکہ مرکزی کونسل تمام کیمپس کیلئے نئے اور جدید قسم کی پالیسیاں ترتیب دے کر نقصانات کے بجائے دشمن کے ان پالیسیوں کو بھی خاک میں ملا کر رکھ دیں۔ اگر ہم دشمن کے کسی بھی قہر کو ان پہاڑوں میں تھکا دینے میں کامیاب ہوئے تو وہ کسی بھی طرح پہاڑی علاقوں میں رہائش کرنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔ کامیابی سے مایوسی دشمن کبھی بھی ناامیدی کے ساتھ انتظار نہیں کرتا مگر گوریلا جنگ کو طویل دینے کیلئے وقت سے زیادہ وقت لے سکتا ہے۔

حالیہ کچھ دنوں میں تین کیمپس پر حملے ہوئے ہیں مطلب دشمن کو بہت سے جنگی کیمپس کے جگہ کا علم و پتا ہوگا کیونکہ وہ کمانڈوز کے ساتھ مکمل جنگی تیاری کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے۔ اس پر نوٹس لیتے ہوئے تمام تنظیموں کے لیڈرشپ کو نئی پالیسیاں کیمپس کمانڈرز تک پہنچانے ہونگے۔

چونکہ اب زیادہ تر مسلح تنظیمیں تنظیمی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں اس لیے انہیں چاہیے کہ تنظیمی سطح پر ایسی پالیسی مرتب کریں کہ ہر ایک چیز کو نوٹس لیا جا سکیں، خاص کر کامی اور غلطیوں کا، جنگ کی جدت، دشمن کے ساز و اسلحہ و طریقہ واردات، ہیلی کاپٹرز کا توڑ، کیمپس کی پوزیشن و جگہوں کا تعین، خاص کر رابطوں کا طریقہ کار، غیر ضروری رابطوں پر سختی سے پابندی، موبائل کے استعمال پر انتہائی محتاط، شہری ساتھیوں سے روابط کے ذرائع، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کا علم مسلح ساتھیوں کو بہت زیادہ ہوگا۔

لیکن بہت ہی غور و فکر سے سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ ہم ایک آزاد ریاست کیلئے لڑ رہے ہیں، ایک فوج کے طور پر لڑ رہے ہیں۔ آزاد ریاست کا قیام کوئی معمولی بات نہیں، سوچ و فکر سے بہت زیادہ چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ایک آخری خیال یہ ہے کہ گوریلا قیادت کو انتہائی وسیع پیمانے پر پڑھنے کی ضرورت ہے، دنیا میں جاری ہر جنگ کی نوعیت و حکمت عملیاں، ہر تحریک کے تقاضے، آئرش رپبیلکن آرمی جیسے ادارے کی منشور و طریقہ واردات کا علم حاصل کرکے ہم پاکستان جیسے کمزور ملک کے سامنے بلوچ سرزمین پر ریاست کو ناک رگڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ تمام چیزیں اُس وقت ممکن ہو سکتی ہیں جب گوریلا قیادت جس کے زیراہتمام تنظیمیں ہیں وسیع پیمانے پر علم و ادراک رکھتے ہوں۔

لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن میری اس تحریر کا بنیادی مقصد جدید دور کے تقاضوں کے مطابق جدید جنگی فیصلوں پر زور دینا ہے اور اس طرح کے سنگین نقصانات سے بچنے کا طریقہ ڈھونڈنا ہے۔ باقی جو جنگ میں شریک ہیں اور ریاست کا سامنا کر رہے ہیں انہیں بہتر اندازہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں