بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ 23 فروری کو کیچ ہوشاپ کے پہاڑی سلسلے ساتک کور میں تنظیم کے گوریلا کیمپ پر قابض پاکستانی ڈرون نے تین میزائل فائر کیے جو کیمکل مواد سے لوڈ تھے جنہوں نے ایک بڑے رقبے پر تباہی مچائی دی، مذکورہ جگہ پر کھجور کے باغات اور دیگر پودے مکمل جلس گئے تھے۔
ترجمان نے کہا کہ ڈرون میزائل حملوں کے بعد قابض کے پیدل فورسز نے کیمپ کو چاروں اطراف سے گھیرنے کی کوشش کی اور آٹھ سے زائد ریاستی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اہلکار کیمپ کے داخلی راستوں پر اتارے گئے، میزائل حملے میں تنظیم کے دو کمانڈر ماسٹر آصف بلوچ اور سراج بلوچ سمیت پانچ ساتھی شہید ہوگئے جبکہ دیگر پانچ ساتھیوں نے صبح پانچ بجے سے شام چار بجے تک قابص دشمن کے فورسز سے دو بدو مقابلہ کیا اس دوران فورسز کے متعدد کمانڈوز ہلاک کردیئے گئے اور خود عظیم آزاد وطن کی خاطر شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہوکر ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ شہید ہونے والے بلوچ فرزند کمانڈر ماسٹر آصف عرف مکیش جان ولد محمد رضا سکنہ شاپک ہوشاپ ریجن کے آپریشنل کیمپ کمانڈر اور تنظیم کے مرکزی مشاورتی کمیٹی کے رکن تھے وہ ایک معلم تھے جنہوں نے 2002 میں بحثیت ٹیچر اپنے ملازمت کا آغاز کیا اس دوران اس نے اپنی قومی ذمہ داری کے تحت اپنے شاگردوں کو پاکستان کی جھوٹی نصاب پڑھانے کے بجائے قومی غلامی اور قومی آزادی کے متعلق درس دیا۔ انہوں نے 2015 تک قومی آزادی کیلئے سیاسی مزاحمت کا راستہ اپنایا اس کے بعد وہ مسلح مزاحمت سے وابستہ ہوگئے 2017 میں پسنی شادی کور کے مقام پر تنظیم کے کمانڈر جمیل جان عرف کیّا کی چار ساتھیوں سمیت شہادت کے بعد ماسٹر آصف کو ان کی جگہ تنظیم کے ہوشاپ ریجن کا آپریشنل کمانڈر تعینات کردیا گیا جنہوں نے شہادت تک اپنے ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبایا وہ ایک بہترین استاد اور جنگی کمانڈر تھے ۔ شہادت پانے والے ساتھی سراج ظہیر عرف ظہیر صاحب ولد رشید بلوچ سکنہ شاپک ڈانڈل 2012 سے مسلح مزاحمت سے وابستہ تھے وہ 2015 سے بحثیت کمانڈر بلوچستان کے محتلف علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں نباتا رہا ان کو حال ہی میں تنظیم کی جانب سے ہوشاپ اور گورکوپ ریجن میں تنظیم کا آپریشنل کیمپ کمانڈر تعینات کردیا گیا تھا وہ بلوچی کے ایک اچھے شاعر اور ایک بہترین جنگجو تھے، جنگی خان بلوچ عرف عیسیٰ ولد ماسٹر حصا سکنہ شاپک نوجوانی میں طلباء سیاست سے وابستہ تھے وہ 2014 سے مسلح مزاحمت سے وابستہ تھے وہ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے جنگی خان ایک بہتریں جنگجو تھے جن کو حال ہی میں سراج زھیر فیلڈ کیمپ کا سیکنڈ کمانڈر تعینات کردیا گیا تھا کماش ملنگ عرف ماما ولد یعقوب سکنہ شاپک 2014 سے مسلح مزاحمت سے وابستہ تھے پیران سالی کے باوجود وہ ایک بہادر اور حوصلہ مند سرمچار تھے انھوں نے دُشمن کے خلاف اور نام نہاد سی پیک کے خلاف کئی اہم معرکات میں حصہ لیا کمال جان عرف گُلاب ولد محمد سعید سکنہ اومری کہن شاپک 2019 سے مسلح مزاحمت سے وابستہ تھے وہ زمین کے ایک سچے فرزند اور ایک بہادر سرمچار تھے دِل جان عرف نزیر ولد میران سکنہ سنگ آباد تجابان 2018 سے مسلح مزاحمت سے وابستہ تھے وہ ایک ماہر جنگجو اور زمین کے بہادر سپوت تھے 2021 ان کا ایک بھائی شھید حلیف ریاستی ڈیھتہ اسکواڈ کے حملے میں شہید ہو گئے تھے اور ایک بھائی آج بھی ریاستی زندانوں میں قید ہے عارف جان عرف میرخان ولد فقیر سکنہ تربت آپسر 2020 سے مسلح جدوجہد میں شامل ہوا تھا وہ ایک ہنر مند اور بہادر سرمچار تھے مُنیر جان عرف جمعہ خان ولد در محم سکنہ ھوشاب دمب 2016 سے قومی مزاحمتی جنگ میں شامل تھے انھوں نے دُشمن کے خلاف کئی اہم محرکات میں حصہ لیا وہ ایک بہادر اور نڈر سپوت تھے شعیب عرف سراج ولد عید محمد، دولت عرف چراگ ولد یوسف سکنہ ھوشاب دمب گزشتہ ایک سال سے تنظیم سے وابستہ تھے وہ بلوچ زمین کے عاشق اور بہادر سرمچار تھے۔
ترجمان نے کہا کہ تمام بلوچ فرزندان کو وطن کی آزادی کیلئے ثابت قدم رہنے اور سروں کی قربانی دینے پر تنظیم انھیں “رُژنِ آجوئی” کے خطاب دینے کا اعلان کرتی ہے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں تُمپ میں شہید ہونے والے تنظیم کے کمانڈر نور سلام نور اور دیگر دوستوں کی شہادت بھی ڈرون حملے میں ہوئی ہے جبکہ یہ ڈروں ٹیکنالوجی قابض ریاست کو چائنا اور تُرکی کی جانب سے فراہم کئے گئے ہیں ہم دیگر مزاحمتی تنظیموں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاست کے اس جدید ٹیکنالوجی سے ہوشیار رہیں ہم ایک بار پھر عزم کرتے ہیں کہ دُشمن کے خلاف ہماری جدوجہد ایک پرعزم جذبے کے ساتھ جاری رہیگا شہید ہونے والے کمانڈروں کی جگہ نئے کمانڈر تعینات کئے گئے ہیں جو دُشمن کے خلاف مسلح مزاحمت کو جاری رکھینگے۔
انہوں نے کہا کہ قربانیوں کا تسلسل آزاد بلوچستان کی قیام تک جاری رہیگا۔