ڈاکٹر اللہ نزر سے ڈاکڑ مجاہد بلوچ تک ۔ اسلم آزاد

1622

ڈاکٹر اللہ نزر سے ڈاکڑ مجاہد بلوچ تک

تحریر:اسلم آزاد 

دی بلوچستان پوسٹ

جہاں یونیورسٹی اور دانش گاہ کا ذکر ہوتا ہے تو انسان کے دماغ میں درس گاہ، تربیت گاہ کا خیال آتا ہے، لیکن جیسے ہی بات بلوچستان کے یونیورسٹیوں تک پہنچ جاتا ہے تو ان تمام الفاظ کے معنی بالکل بدل جاتے ہیں۔ کیونکہ مقبوضہ بلوچستان کی  یونیورسٹیاں سامراجی ادارے ہیں جو ایک خاص قسم کی نوآبادیاتی(غلامانہ) ذہنیت کو فروغ دے رہے ہیں۔

جب قومیں غلام ہوتے ہیں، تو قومی ادارے بھی غلامی کے زیر اثر ہوتے ہیں پھر یہی سامراجی نظام اپنے سامراجی ادارے، میڈیا، مذہب، این جی اوز اور تعلیمی نظام کے ذریعے زہنی غلام پیدا کرتے ہیں، یہ غلام لوگ دوبارہ سامراجی نظام کے پرزے پاٹ بن جاتے ہیں، اسی طرح یہ غلامی کا سائیکل چلتا ہے اور سامراجی مشینری آگے بڑھتا ہے ۔

یاد رہے  کہ یہ صرف ایک فردِ واحد مجاہد بلوچ کا لیچکرار کیلئے بھرتی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بلوچستان میں مجاہد جیسے ہزاروں بے روزگار نوجوان ہیں جو روز دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، جن کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں، وہ مظلوم ریاستی ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے احتجاج کو پریس کلب میں ریکارڈ  یا قلم کے ذریعے اٹھا نہیں سکتے ہیں، اس مرد مجاہد نے بہادری کا مظاہرہ کر کے اب بلوچستان اور پاکستانی ریاست کے درمیان میں  ایک صاف لکیر کھینچی ہے ، یہ تعلق صرف ظالم اور مظلوم کا ہے۔

اگر پاکستانی ریاست بلوچستان کے نوجوانوں کو مسلسل اس طرح  تنگ کرتا ہے، مختلف زریعے سے اینگیج کرنے کی کوشش کرتا ہے انکے جائز حق پر بدستور ڈاکہ زنی کرتا ہے، انکی شناخت کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے، تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ سیاسی اور جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید مذاحمت کریں، بلوچستان کے قومی آزادی کے تحریک کی حصہ بنیں، جسکا ذکر مجاہد صاحب نے اپنی پہلی آرٹیکل میں خود کیا تھا “اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو ہمارے لیے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے”۔ مجاہد صاحب نے بالکل درست فرمایا ہے کیونکہ یہ ریاست قلم کی نہیں صرف بندوق کی زبان سمجھتا ہے۔

بشمول مجاہد بلوچ، اگر بلوچ قوم کے ہزاروں نوجوان اپنی ذاتی مفادات و مراعات سے بالاتر ہوکر اپنی قومی تشخص کو بحال کرنا چاہتے ہیں، اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ بلوچ سماج میں عدل، انصاف اور آذادی ہو، پھر نوجوان نسل کو شعوری اور نظریاتی طور پر کلیئر ہونے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان کے تمام مسائل کی جڑ سامراجی غلامی ہے اور اس کا حل نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہے۔

مجھے مجاہد بلوچ پر پورا بھروسہ ہے اگر اسکو حق اور انصاف نہیں ملا وہ اپنی بلوچی زبان  (وعدہ) خلافی نہیں کریگا بلکہ بلوچستان کے پہاڈوں کا رخ کر کے سامراجی ریاست کو یہ ثابت کر کے دکھائے گا کہ بلوچ پڑھے لکھے نوجوانوں کا آخری منزل مقصود آزادی ہے،  پھر مجاہد صاحب بالکل یہ اقرار کریں گے کہ مجھے بہت دیر احساس ہوا تھا کہ میں نوآبادکار سے عدل و انصاف کا بھیک مانگ رہا تھا جو کہ ایک ناممکن عمل تھا۔

نوآبادیاتی نظام میں باشعور  اور باضمیر ٹیچرز کی کوئی جگہ نہیں ہے، اگر انڈرگرانڈ ایک دو باشعور  ٹیچرز شعوری کوشش کریں کہ طلباء و طالبات میں آگاہی کو فروغ دی جائے تاکہ وہ آذاد اور خودمختار انسان ہوں،  لیکن سامراج اُن کو چن چن کر اغوا، جعلی انکاوینٹر یا ماورائے عدالت قتل کرتا ہے۔

اگر اسٹیبلشمنٹ کہ سامراجی پالیسی بلوچستان کے حوالے مزید سخت ہونگے  تو بلوچستان کے مجاہد بلوچ جیسے ہزاروں قابل اور ذہین نوجوانوں کو اپنی نظریاتی سمت کلیئر کرنے میں مذید آسانی ہوگی کہ نوجوان نسل کے پاس مسلح جہد و جد کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

جہاں تک میرا رائے ہے، مجاہد بلوچ کو مایوس ہوکر پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال میں مرنے کے بجائے ڈاکڑ اللہ نزر بلوچ کی طرح ہتھیار اٹھا کر ریاستی اداروں کو چیلنج کرکے پہاڈوں کا رخ اختیار کرنا ہوگا تاکہ نوجوان نسل کو مسُلح جدوجہد کے راستے کے چنُاو میں مزید آسانی ہوجائے اور بلوچستان میں جاری تحریک میں فدائی حملے کی صورت میں  مذید شدت پیدا کیا جاسکے۔ اگر ڈاکڑ مجاہد بلوچ ڈاکٹر اللہ نزر کی طرح دانشمندی اور بہادری کا مظاہرہ کرکے بندوق کی نالی پر یقین رکھیں، میں حلفیہ کہتا ہوں کہ نہ صرف ریاست مجاہد بلوچ کے پاوں تلے جھک جائیگا بلکہ وہ اپنے قوم کے آنے والے ہزاروں نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں