پنجگور حملہ
تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
پنجگور FC ہیڈکواٹرز نہیں بلکہ اس وقت پورا پنجگور شہر مجید برگیڈ کے قبضے میں ہے، ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے اور فلموں میں دیکھا ہے جب دو طاقتوں کے درمیان جنگیں ہوا کرتی تھیں تو حملہ آور کسی بادشاہ، شہنشاہ یا نواب کے قلعے پرحملہ آور ہوتے تھے تو قلعے کے محافظ دفاعی پوزیشن سنبھالتے ہوئے اپنے قلعے کی حفاظت پہ معمور ہوجاتے تھے جنگ میں قلعے پر جس کا قبضہ ہوتا تو جنگ میں وہی طاقت ورطاور فاتح قرار پاتا۔
اب جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں چھالیس گھنٹے پورے ہونے کو ہیں کہ بی ایل اے مجید برگیڈ کے فدائین پنجگور ایف سی ہیڈکواٹرز پہ قبضہ جمائے ہوئے فورسز کے ساتھ شدید نوعیت کے جھڑپ میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ فورسز ان کو پسپا کرنے کی محض دعویٰ کررہے ہیں مگر حقائق اس سے میلوں دور ہیں دو دنوں سے پنجگور میں کرفیو لگا ہوا ہے اور تمام ریاستی امور رُکے ہو ئے ہیں سرکاری دفاتر و کاروباری امور سب بند ہیں۔
ایف سی ہیڈکواٹرز پہ حملہ ایک ایسا حملہ ہے، جس نے فورسز کے جتنے بھی سیکورٹی کے اقدامات اور انٹیلی جنس ادارے ہیں یہ ان سب کی شکست ہے۔ پنجگور ہیڈکواٹرز کے حفاظت پہ معمور پنجگور کے ارد گرد میں جتنے چھوٹے بڑے چوکیاں اور کیمپ ہیں یہی تصور کریں ان سب پر قبضہ کرکے اب ان ہیڈکواٹرز پہ قبضہ کیے ہوئے ہیں کیونکہ یہ کیمپس اور چوکیاں اسی ہیڈکواٹرز کے حفاظت کےلئے معمور ہیں ان کا کام یہی ہے کہ وہ ہیڈ کوارٹرز کی حفاظت کریں اور اب اگر کوئی آکر ہیڈکواٹرز پہ قبضہ جمائے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ ان کا جو وجود تھا جس کے لئے ان کو قائم کیا گیا ہے وہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہ ہیڈکواٹرز کے حفاظت کے لئے معمور تھے وہ اس کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
پنجگور میں جاری جھڑپ میں جہاں بلوچ سرمچاروں کی کامیابی اور فورسز کی ناکامی پہ میڈیا اور پاکستانی حکام جس طرح دروغ گوئی کا سہارا لے رہے ہیں اس طرح وہ عام لوگوں کے حوصلے کو گرانے کے لئے روایتی طور پر جبری اور نفسیاتی دباؤ دینے کی آخری کوشش کررہے ہیں۔ کل کے دو عام بلوچ نوجوان شہریوں کا قتل اسی کی کڑی ہے کہ فورسز کا خوف لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جائے اور جو شکست انہوں نے کھائی ہے اس کے بعد بھی فورسز کا خوف لوگوں کے دلوں میں برقرار رہے اور ختم نہ ہو۔
آخر میں مجھے ایک کہانی یاد آرہا ہے پرانے زمانے کی بات ہے ایک نہایت ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اسے خون بہانے کا بہت شوق تھا۔ اڑوس پڑوس کی ریاستوں پر لشکرکشی کرتا رہتا تھا اور مفتوحہ شہروں میں کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا۔
ایک مرتبہ اس کی رعایا نے فریاد کی کہ قریبی جنگل میں ایک شیر آ گیا ہے یہ سنتے ہی اس ظالم بادشاہ نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جنگل کا رخ کیا۔ اعلان تو اس نے شیر مارنے کا کیا تھا مگر ہاتھی گھوڑا بکرا خرگوش جو بھی سامنے آیا، اس نے مار ڈالا۔ دس ہرن کھاتا اور سو ہرنوں کو محض خون بہانے کے شوق میں ہلاک کر ڈالتا۔
یہ توایک فطری عمل ہے جب بلی کو بھی بھاگنے کا راستہ نہیں ملتا ہے تو وہ حملہ کر دیتی ہے۔ بارہ سنگھے اور ہرن بھی گھیرے جاتے تو ان جانوروں سے جتنا بن پڑتا تو اپنی جان بچانے کیلئے بادشاہ کے لشکر کے ساتھ اتنی مزاحمت کرتےتھے ۔ یوں شکار کرتے ہوئے کئی شاہی شکاری زخمی ہوئے اور مارے بھی گئے۔ تو شکست خوردہ بادشاہ کا شکار سے دل بھر گیا اور جنگل میں اس کی دلچسپی نہ رہی تو اس نے اپنی رعایا کو مطمئن کرنے کیلئے اعلان کیا کہ اس نے شیروں کو مار ڈالا ہے اور اس کی فتح مکمل ہوئی ہے۔ اس نے کیمپ اکھاڑا اور جنگل سے واپس چلا گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں