پنجگور اور نوشکی میں جبری گمشدگی اور ماروائے عدالت قتل کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

386

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے پنجگور و نوشکی میں فورسز کی جانب سے عام لوگوں کے قتل عام اور جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں ہونے والے واقعہ کے بعد پنجگور میں اجتماعی سزا کے طور پر افراد کو نشانہ بناکر قتل کیا جا رہا ہے جس کو فوری طور پر بند کر دینا چاہیے۔ عوام کے تحفظ کی ذمہ داری سیکورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے مگر تحفظ کی بجائے انہیں اجتماعی سزا کا نشانہ بناکر قتل کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ 3 دن کے اندرنوشکی اور پنجگور سمیت دیگر علاقوں میں بے گناہ افراد کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا ہے اور متعدد افرد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جو انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کالونی جیسے طرز عمل کو ترک کر دیں۔

ترجمان نے کہا کہ گذشتہ روز پنجگور اور نوشکی میں ہونے والے واقعات کے بعد خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ بڑے پیمانے پر اجتماعی سزا کے طور پر عام اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ گذشتہ تین دن کے اندر عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے بعد خدشہ حقیقت میں بدل گیا ہے۔ گذشتہ دنوں پنجگور سے ذہنی توازن سے محروم ندیم ابدال، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے فرسٹ ائیر کے طالب علم احتشام ولد غلام سرور اور بالگتر کے رہائشی الطاف کا فیک انکاؤنٹر اور مچھ سے بھی ایک لاپتہ افراد کو قتل کرنے کی اطلاع موصول ہوئی ہیں جبکہ اس دوران درجنوں افراد کو سیکورٹی فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن میں سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ملک میران، بالاچ، عقیل اور شبیر شامل ہیں۔ جن کے زندگیوں کے حوالے سے لواحقین کو شدید خدشات لاحق ہے۔

دوسری جانب نوشکی میں تاحال موبائل سروسز معطل ہیں جبکہ گردنواح کے علاقوں میں زمینی اور فضائی آپریشن کی جارہی ہے۔ نوشکی کے علاقے مل اور گردنواح میں آج بھی فوجی آپریشن جاری ہے اور ضلع بھر سے سو کے قریب افراد کے جبری طور پر لاپتہ کرنے کی اطلاعات ہیں جن میں سے دو افراد کی شناخت وحید اور گلوکار عاصم کے ناموں سے ہوئی ہے۔

سیکورٹی اداروں کی جانب سے عام عوام کو نقصان دینا کسی کے حق میں نہیں ہے اور یہ مزید مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ ریاست کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کی حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ سمیت پاکستان کے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں عرصہ دراز سے انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی ادارہ کام کرنے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بلوچستان سے آئے روز لوگ احتجاج کی طرف جاتے ہیں مگر انہیں متواتر مایوس کیا جا رہا ہے

بلوچستان سے طالب علموں سے لیکر محنت مزدوری سے منسلک افراد ہمیشہ احتجاج پر ہی ہوتے ہیں۔ عدلیہ کسی بھی ریاست کا اہم ستون ہے اور بلوچستان کے معاملے میں اس کا کردار پریشان کن ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے میں کردار ادا کریں۔