کراچی پریس کلب کے سامنے قائم لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ہڑتال کیمپ کو 4592 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں جئے سندھ قومی محاز کے سینئر ساتھی اعجاز چانڈیو، جنید چانڈیو اور دیگر شامل تھے۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے مخاطب ہوکر کہا ہماری جدوجہد میں ہم سیاسی جلسہ جلوس مظاہرہ بھوک ہڑتال کیمپ لانگ مارچ سوشل میڈیا کیمپن سب کچھ کرتے آرہے ہیں آج کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھے لاپتہ بلوچوں کے بازیابی کی آس دل میں لئے پاکستانی خفیہ اداروں کے دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہے مگر انتظار میں ہے کہ کب عالمی قوانین انکے عمل کو عملی جامہ پہناںٔیں گے ہم ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں وہ تحریری شقوں کو معمولی سی عملی جامیہ پہناںٔیں ہزارو بہنیں ماںٔیں اپنی فیملی کے ساتھ خوش رہ کر زندگی سنوار سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ بچے پریس کلبوں کے سامنے بیٹھنے اور مظاہروں میں چیخ و پکار کے بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انسانوں کی طرح زندگی گزاریں اور لاکھوں بلوچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا ماحول میسر ہو و گرنہ ظالموں اور وحشیوں کے سامنے رونا بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں یہ جانتے ہوئے بھی چیخ و پکار کرنا دنیا کے با ضمیر لوگوں تک اپنی آواز پہنچانا ہے گو کہ اس کے لئے ہمیں میڈیا اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ہم محروم ہیں اور پاکستانی میڈیا ان مظالم کو چھپانے میں رياستی گناہوں میں برابر شریک ہوکر بلوچستان آہ و فریاد کو نظر انداز کر رہا ہے کیا بلوچوں کے لئے معاشی منڈیوں سمیت سماجی زندگی کے تمام پہلووٴں کو پھیلاؤ اور تیز ہوکر دنیا سے جڑ جانے کا نام مرنا غائب ہونا ترقی و خوشالی کے متعلق عالمی معاشی و سیاسی معاہدات کے بجاے اپنی زندگی بچانے کے لئے چیخ چیخ کر بھیک مانگنا ہے لاشیں اٹھانا دنیا کی پسماندہ ترین قوم بن کر رہنا ہمارے عالمگیریت ہے بےعزتی کرنا نہ ماننے پر قتل کرنا اور اس طرح کی سینکڑوں کیسز سندھ میں سامنے آچکے ہیں پھر علی الا علان کر کے ہاتھووں کے خون دھوۓ بغیر سر عام گھماتے رہنا نہ جدید ٹیکنالوجی کے کیمروں کے آنکھ میں آئ نہ زمین اور سمندر کی گہرائی تک معدنیات کی کھوج لگانے والے عالمگیریت کے علمبرداروں کو دکھائی دیںٔے۔