نظریہِ ضرورت ۔ اسلم آزاد

892

نظریہِ ضرورت

تحریر: اسلم آزاد

دی بلوچستان پوسٹ 

ہر انسان کو زندگی گزارنے کے لیے ایک نظریئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں نظریہِ ضرورت کا مقصد وہ سیاسی نظریہِ ضرورت نہیں ہے, جس کا مطلب ایک مقصد کی حصول کے لیے موجودہ وقت میں جو بھی اقدام اٹھانے کی ضرورت پڑے تو نظریہِ ضرورت (Doctrine of necessity)تحت اٹھاتے ہیں۔ ہمارا یہاں نظریہِ ضرورت سے مراد وہ فکر و فلسفہ جو کہ انسان کی نفسیاتی ضرورت پورا کرتا ہے۔

فطری طور پر انسان کی دو بنیادی ضروریات ہوتے ہیں۔ مادی(Material) اور غیر مادی(ideology) ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں جتنا بھی تحقیق، تخلیق یا ایجادات ہوئے ہیں ان سب کا بنیادی مقصد انسان کی مادی اور غیر مادی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا آسان ہوگا کہ مادی اور غیر مادی ایجادات کا بنیادی مقصد انسان کے مشکلات کو کم کرنا اور اس کو آسان زندگی گزارنے میں مدد کرنا تھا۔

مادی ضرورت Material
مادی ضرورت سے مراد، کھانا، پینا، سونا، بیوی، بچے، ملازمت، گھر، گاڈی ہیں۔ مادی ضرورت انسان کی زندگی گزرنے کے لیے اشد ضروری ہیں۔ جن کے بغیر انسان زندہ(survive) رہ نہیں سکتا ہے۔اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو انسان نے اپنی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمینی حقائق اور قدرتی قانون کو مدنظر رکھ کر مختلف ادوار میں مختلف اقسام کی شے ایجاد کئے ہیں۔ مثال کے طور پر روٹی،کپڑے، مکان، ٹیلیفون، جنگی جہاز، ٹکنالوجی وغیرہ وغیرہ۔

غیر مادی ضرورت (ideology)
غیر مادی ضرورت کا کوئی جسمانی ساخت نہیں ہو سکتا ہے اس لیے اسے غیرمادی کہتے ہیں۔ ہمارا یہاں غیر مادی ضرورت سے مراد، ہر وہ سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی سائنسی یا ثقافتی نظریہ جو انسان کی نفسیاتی ضرورت پورا کرتا ہے، انسانی زندگی کو ایک جامع معنی اور مقصد فراہم کرتا ہے۔ یہ نظریہ انسانی فطری ضروت ہوتا ہے۔

انسان کے جسمانی ضروریات پورا ہونے کے بعد انسان کو ایک واضح نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کو ایک شعوری سمت دے سکیں، اور اپنے وجود کو ثابت(justify) کرسکیں کہ وہ اس جہاں میں کیوں زندہ ہے؟ اس کے زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس نظریاتی خلا (Gap) کو بھرنے کے لیے انسان کو ایک نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

انسان کا اپنے اندرونی اور بیرونی دنیا کو ایک لغوی معنی دینا یا تشریح کرنا انسان کی ایک بنیادی نفیساتی ضرورت ہے۔ بغیر معنی اور مطلب کے انسان ایک لمحہ بھی زندہ رہ نہیں سکتا ہے، چاہے اسکی بنیادی تمام ضرورت پورے کیوں نہ ہوں۔ اسلیے ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے ایک نہ ایک نظریہ کا سہارا لینے کی ضرورت پڑ جاتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کے ہر خوشی اور غم سے گھبرانے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیں۔

انسان کا مضبوطی اور کمزوری کا براہ راست انسان کی نظریہ پر انحصار ہے۔ اگر انسان نظریاتی حوالہ سے کمزور اور نڈھال ہے، تو وہ نفیساتی طور پر شکست خوردہ ہوتا ہے۔ آدمی کو کہاں، کیسے اور کیا کرنا چاہیے۔ یہ سب فیصلہ آدمی اپنی زاتی جذبات اور خواہشات پر نہیں کرتا ہے، بلکہ آسان کی نظریہ ان فیصلے اور اعمال کا تعین کرتا ہے۔ اگر انسان نظریاتی حوالہ سے کمزور ہے۔ تو وہ اپنی زندگی کے حالات اور واقعات کو درست سمت نہیں دے سکتا ہے جسکی وجہ سے وہ بہت جلدی اپنا دماغی کنڑول کھوتا دیتا ہے، جسکی وجہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوتا ہے۔

اگر انسان نظریاتی حوالہ سے محکم اور مضبوط ہے نہ صرف وہ اپنی زندگی کے ہر مشکل حالات سے بہادری کے ساتھ مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ وہ ایک پُرامن اور خوشحال زندگی بھی گزار سکتا ہے۔

ہمارے یہاں مطلب ایک غلام قوم کے لیے کونسی نظریہ ضروری ہے جو اسکی مادی اور غیر مادی تکلیفات کو دور کرسکے، اور اسکی غلامانہ زندگی کی سہی معنوں میں ترجمانی کرسکیں۔

جہاں تک میرا نادانستہ علم ہے، غلامانہ سماج کے غلام انسانوں کے لیے نطریہِ آزادی اتنا ضروری ہے جیسا کہ ایک تلسیمہ مریض کے لیے خون کی ضرورت ہے کیونکہ غلامانہ سماج میں غلاموں کے جسمانی ضرورت سے زیادہ ان کے نفسیاتی بحران ہوتے ہیں۔

ان نفسیاتی بیماریوں کو علاج کے لیے نظریہ آزادی کے سوا اور کوئی دوسرا بہتر نظریہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اسکی بنیادی وجہ یہ کہ غلامانہ سماج میں جو نظریہ ہے وہ سامراج کا دیا ہوا ہے جو کہ غلامی پر کار بند ہے، سامراجی نظام میں حقِ زندگی نہیں ہے، غلام کا اپنا کوئی مرضی اور منشا نہیں ہے۔ اس کا مرضی اور منشا آقا کی تخلیق کردہ ہوتے ہیں۔ غلام جب تک غلام ہے اسکا کوئی وجود نہیں ہے۔ غلام کا ہر سیاسی، سماجی، معاشی، اور نفسیاتی مسائل اس کو اپنے غلامی کے ورثہ سے ملتے ہیں۔

نظریہ آذادی غلام انسان کا نہ صرف نفسیاتی ضرورت پورا کرتا ہے بلکہ غلام انسان کی مردہ جسم کو ایک زندہ روح پھونکتی ہے۔ اسکو دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ اسکا ہر وجودی، نفسیاتی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور قومی بحران کو دور کرتا ہے۔ اسلیے ایک غلام کے لیے نظریہ آذادی سے بڑھ کر اور کوئی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں