میری کہانی – عزیز زہری عرف فدائی بارگ

3045

میری کہانی

تحریر: عزیز زہری عرف فدائی بارگ

دی بلوچستان پوسٹ

میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہا تھا اور میرے گھر والے میری قابلیت پر فخر کر رہے تھے، اس وقت میں بہت خوش تھا کیونکہ ایک طالب علم کیلئے اسکی تعلیمی زندگی کے علاوہ اور کچھ معنی نہیں رکھتا۔ دوران تعلیم ہر طالب علم اپنی زندگی کی دوڑ میں مصروف دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر نو عمر طالب علم کی طرح میں بھی کھیل کود میں مشغول تھا، زندگی کا کوئی غم نہ تھا، زندگی کی حقیقت سے نا آشنا تھا۔

جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو مجھے یاد ہے، وہ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، جب اچانک ایک دن کسی دوست کا فون آیا اور کہنے لگا کہ پکنک کیلئے تیار ہوجاو، میں نے دوست سے کہا کہ تھوڑا صبر کرو میں اپنے ابو جان سے اجازت مانگتا ہوں۔ دوست نے کہا ٹھیک ہے، میں ابو جان کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ میرے چند دوست پکنک پر جارہے ہیں کیا مجھے اجازت ہے؟ کچھ لمحوں کیلئے میرے ابو جان کے چہرے پر خاموشی چھاگئی اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ابو جان اس بات پر راضی نہیں ہونگے پھر ابو جان بولے کہ “بیٹا تمہارا اکیلے پکنک پر جانے کی ابتک عمر نہیں ہے اور میں نے سنا ہے کہ تمہارے دوست نشے کے عادی ہیں، میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتا ایسا نہ ہو کہ تمہیں نشے کا لت لگ جائے، آج کے بعد ایسے دوستوں سے رابطہ بھی بند کردو۔

میں غصے سے اپنے کمرے میں چلا گیا اور دوستوں سے رابطہ کرکے کہا کہ ابو جان میرے پکنک پر جانے پر آمادہ نہیں ہیں تو دوستوں نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے تم اپنے گھر سے بغیر اجازت ہمارے ہاں آجاؤ۔ ہم تمہارے انتظار میں بیٹھے ہیں، میں بھی فوراََ تیار ہوکر گھر سے نکل گیا اور دوستوں کے ہاں پہنچ گیا اور ہم بازار سے پکنک کا ساز و سامان لیکر نکل گئے۔

دو دن کے بعد ہم پکنک کی جگہ ” چٹوک” پہنچ گئے کچھ دوست لکڑیاں جمع کرنے گئے اور کچھ دوست کھانا پکانے میں مصروف ہوگئے اور میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ مچھلی شکار کرنے کیلئے چٹوک کی ندی پر جا پہنچا اور کچھ گھنٹوں کے اندر بہت سی مچھلیاں پکڑنے کے بعد دوستوں کی طرف روانہ ہوئے۔ جب دوستوں کے پاس پہنچے تو ہم پکڑی مچھلیاں پکانے میں مصروف ہوگئے اور تھوڑی دیر بعد کھانا کھایا۔

کھانے کے بعد چند دوستوں نے کہا عزیز بھائی چلو آج تمہیں ایک ایسی شئے کے بارے میں بتاتے ہیں جو تمہیں زندگی بھر سکون ہی سکون دے گا۔ میں نے کہا کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ وہ شئے کیا ہے؟ وہ بولے آج تمہیں ہم شیشہ پلائیں گے اور میں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دیا اور ہم پورے ایک گھنٹے تک شیشہ پیتے رہے۔ نشے کی حالت میں مجھے کسی چیز کا بھی خبر نہ تھا۔ پھر ہم گھر کی طرف واپس روانہ ہوئے جب میں گھر پہنچا تو سب مجھ سے ناراض تھے۔ میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور کچھ گھنٹوں کے بعد میرا سر درد کرنے لگا۔

کچھ دنوں میں ہی میں سمجھ گیا کہ مجھے نشے کی لت لگ گئی ہے، میں ہر روز اپنے دوستوں سے نشہ منگواتا رہا پھر میں نشے کی عادت میں اندھا ہوگیا تھا، میرا یقین بھی گھر والوں سے ٹوٹ گیا تھا۔

ایک دن میرا ایک عظیم دوست ماما مجھے اپنے پاس بٹھا کر نصیحت کرنے لگا اور کہنے لگا کہ اگر تم کچھ اچھا نہیں کرسکتے تو برا بھی نہ کرو، وہ بہت کوشش کرنے لگا کہ میں نشے جیسی سماجی برائیوں سے دور رہوں۔

مجھے ایک دن اچھی طرح یاد ہے، یہ 2016 کا سال تھا، جب ایک دن میرے لیئے قیامت بن کر آئی، اس دن میری لڑائی میرے عظیم اور قابل استاد ماما سے ہوئی اور میں غصے میں گھر سے نکل کر اپنے ایک قریبی دوست کے گھر گیا۔ جب میں پہنچا تو دوست مجھے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ میں غصے سے لال پیلا اور پسینے سے شرابور تھا اور نشے کی حالت میں تھا۔ نشے کی حالت میں میری آنکھ لگ گئی۔

جب صبح نیند سے اٹھا تو میرے دوست نے پوچھا ایسا کیا ہوا ہے کہ لوگ تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے کچھ ایسا کرنا ہے کہ میں ماما کو نقصان پہنچا سکوں۔ میرے دوست نے اس بات کا فائدہ اٹھا کر میری ملاقات ایک گھٹیا سردار سے کرائی۔

میں نے اس سردار سے کہا کہ ماما مجھے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گذارنے کے بجائے، اپنے پیروں تلے دبانا چاہتا ہے، تم مجھے اسطرح کا کوئی راستہ دکھاؤ جو اس مسئلے کا حل ہو؟ تو سردار نے کہا کہ ماما کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچاؤ، تاکہ تمہاری جان اس سے چھوٹ جائے۔

ایک دن جب میں نشے کی حالت میں بے خود تھا تو سردار کے دو بندے آکر مجھے بھڑکانے لگے کہ ماما تمہاری جاسوسی پر دو بندے لگائے ہوئے ہے۔ ایک طرف نشے کی حالت اور دوسری جانب ماما کا غصہ میرے سر پر سوار تھا، میں نشے کی حالت میں سردار کے ہاں پہنچا۔

میں نے ضد اور انا کی وجہ سے کچھ جھوٹ بناکر سردار سے ماما کو اغواء کرنے کیلئے کہا کچھ دنوں بعد مجھے احساس ہوا کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں میں بہت غلط کر رہا ہوں۔ ایک دن میری آنکھوں کے سامنے سردار کی سرف گاڑیاں ماما کو اغواء کرنے کیلئے نکل رہی تھیں اور میں ڈر کے مارے دوڑ دوڑ کر ماما کے پاس گیا۔

میں نے دیکھا سرف گاڑیاں نزدیک چکر لگا رہے تھے۔ میں نے رو رو کر ماما سے کہا کہ سب کچھ ختم ہوگیا، میں نے گڑبڑ کرلی ہے، تم فوراََ یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ یہ گاڑیاں تمہارے لیئے آرہے ہیں، مجھے معاف کردو۔ میرا دوست ماما بے خوف ہو کر مجھے اپنے سینے سے لگا کر تسلی دینے لگا اور کہا کہ بے فکر ہوجاو پھر مجھ سے کہنے لگا کہ تیار ہوجاؤں کل صبح میں تمہیں اس جہنم سے نکال دوں گا۔

اگلی صبح گھر والوں سے رخصت کرکے میں سفر پر روانہ ہوگیا، مجھے میرے عظیم دوست نے راز داری کے ساتھ سفر پر روانہ کردیا، مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ رات کے دس بجے ہونگے، جب ہم پہاڑوں پر پہنچے، ہمارے سامنے عجیب و غریب تین مسلح شخص سامنے کھڑے ہوگئے، وہ مجھے گلے لگا کر کہنے لگے کہ کھانا کھا کر تیار ہو جاؤ ابھی منزل نہیں پہنچا ہے، سفر تو اب شروع ہوا ہے۔

خوف کی وجہ سے دونوالوں سے ہی میرا پیٹ بھرگیا، ہم رات کے اندھیرے میں پہاڑوں پر پیدل سفر کرکے روانہ ہوئے، میں بہت تھکا ہوا تھا تو ان مسلح افراد نے میری حالت دیکھ کر کہا کہ رات یہیں گزارتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو ہم مرکز کیجانب روانہ ہوئے اور کچھ گھنٹوں کے بعد جب مرکز پہنچے تو میں نے چالیس سے زائد مسلح افراد ایک ساتھ دیکھا، تو ڈر کے مارے میں کانپنے لگا لیکن سب ایک ایک سے بڑی احترام کیساتھ مجھ سے ملنےلگے لیکن ڈر ابھی تک میرے دل میں بسا ہوا تھا۔

ان مسلح افراد کا کمانڈر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ڈرو مت ہم وحشی نہیں ہیں ہم بلوچ جہد کار ہیں اور اپنی بقا و شناخت کیلئے لڑ رہے ہیں، ہمارا دشمن صرف قابض فوج ہے، جو ہم پر مسلط ہے تم بلوچ ہو ہمارے مہمان ہو، تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا خوف کے بتانا۔ کمانڈر سے ملکر مجھے بہت خوشی ہوئی اور میرا خوف اسی لمحے ختم ہوگیا اور دوسری جانب میرے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے تھے۔

وہاں مجھے ایک سال گذر گیا، اس ایک سال کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا، مجھے زندگی کا شعور حاصل ہوا، میری نشے کی عادت چھوٹ گئی، میں خود کی اور اپنے سماج و قوم کی حالت سمجھنے لگا۔ ایک دن گھاٹ والے نے مجھے آواز دی کہ میں نیٹورک جاؤں کوئی مجھ سے رابطہ کرنا چاہ رہا ہے۔

میں نیٹورک پہنچا تو وہ ماما تھا، ہمارا فون پر طویل گفتگو ہوئی، اس نے مجھے کہا کہ اب تمہاری لت چھوٹ گئی ہے اور اچھے صحبت میں رہنے سے تم بدل گئے ہو، اب تم اپنی مرضی سے واپس گھر جانا چاہتے ہو تو جاسکتے ہو لیکن میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا، یہیں رکنا چاہتا تھا، ایک کارآمد انسان بننا چاہتا تھا اور میں وہیں رک گیا۔

زندگی میں سب سے بڑا چیز احساس ہوتا ہے، یہی احساس آپکو اپنے خاندان، سماج، قوم ، دنیا حتیٰ کہ اپنے ذات تک کیلئے کچھ مثبت کرواتا ہے، مجھے ایک بات کی سمجھ آگئی کہ کس طرح یہ قابض ریاست نشہ، بے روزگاری، غربت، خوف، لالچ اور جبر کو استعمال کرکے ہمارے اس احساس کو دبانا چاہتا ہے کیونکہ ایک بے احساس انسان کسی جانور کی طرح اسکے آسانی سے قابو میں رہتا ہے، لیکن جب ذرا سا احساس پیدا ہوجائے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک گہری نیند سے جاگے ہیں اور ہر چیز صاف دکھنا شروع ہوتا ہے، اور پھر سب کچھ سمجھ آنا شروع کردیتا ہے، جب ایک بار احساس جاگ جائے اور آنکھیں گہری نیند سے کھل جائیں پھر یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آپ دوبارہ بے حسی کا راستہ چنیں، کیونکہ احساس آپکو آزاد کرچکا ہوتا ہے، گوکہ اس آزادی کی بھاری قیمت ہوتی ہے لیکن یہ ہر حالت، ہر وقت، ہر جگہ بے حسی سے لاکھوں گنا بہتر ہوتا ہے۔ میں نے اس احساس اور آزادی کو پالیا تھا، میں کسی طور دوبارہ مڑنا نہیں چاہتا تھا، میں اب ایک آزاد انسان کی طرح جینا اور آزاد انسان کی طرح مرنا چاہتا تھا۔

مجھے وہاں دو سال گزرے تھے، ایک دن جب میں غسل کرکے کیمپ واپس پہنچا تو دوستوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی، میں نے پوچھا کہ سب خیریت ہے؟ تو دوست مسکراتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ آج گوادر پی سی ہوٹل پر مجید بریگیڈ نے فدائی حملہ کیا ہے، جس میں دشمن کو بہت جانی و مالی نقصان پہنچا ہے۔ پھر اسی دن میں اپنے زندگی کا مقصد سمجھ گیا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں مجید بریگیڈ کا حصہ بنوں گا۔

جب میں ایک بے شعور اور نشے کا عادی انسان تھا تو سردار اور سرکار دونوں کا نور نظر تھا، لیکن جب مجھے شعور حاصل ہوئی، معاشرے کا ایک کارآمد سوچنے والا انسان بنا، اپنی قوم کا درد سمجھنے لگا تو پھر میں سردار و سرکار دونوں کیلئے خطرہ بن گیا۔

میری اس نئی زندگی اور نئے سفر کو تین سال بیت گئے تھے، ایک دن میری ملاقات دوبارہ کمانڈر سے ہوئی تو میں نے کمانڈر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں مجید بریگیڈ کے کاروان میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔

کمانڈر مجھ سے بولا کہ تم مزید وقت لو اور صبر کیساتھ اچھی طرح اپنے فیصلے پر سوچو، یہ معمولی فیصلہ نہیں، تسلی کیساتھ وقت لو، اور ہر پہلو کو دیکھنے کے بعد پھر بھی تمہارا فیصلہ نہیں بدلا پھر بات کرینگے۔

میں مجید بریگیڈ کا حصہ اس لیئے بننا چاہتا تھا کہ میں اپنی قوم کی حالت اچھی طرح سمجھ گیا اور اس قرض و فرض کی بھی سمجھ آگئی جو میرے کندھوں پر ہے، میں وہ فرض نبھانا اور قرض اتارنا چاہتا تھا، میں ایک آزاد انسان کے طور پر جینا و مرنا چاہتا تھا اور مجید بریگیڈ مجھے اسی آزادی کی ابتداء معلوم ہوا، مجھے اپنے سرزمین و قوم سے محبت ہوگئی تھی اور فدا ہونا اس عشق کا انتہا معلوم ہوا۔

چند مہینے اسی طرح گذرے، میں نے پھر سے کمانڈر کو فون کیا اور کہا کہ جب میں اپنے اس فیصلے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے سامنے میری مظلوم قوم ہی آتی ہے۔ یہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں ہے، مجھے اچھی طرح پتہ ہے میں کیا کرنا چاہتا ہوں، میں نے فیصلہ اسی دن ہی کرلیا تھا اور آخری سانس تک میرا فیصلہ یہی ہوگا، میں جتنا بھی سوچوں اور وقت لوں یہ فیصلہ نہیں بدلے گا۔

کچھ دن کے بعد میں مجید بریگیڈ کا حصہ بنا اور ٹریننگ کیلئے نکل گیا، یہ دن میرے لیئے سب سے عظیم دن تھا، وہ دن جو میں یہاں دوستوں کے صحبت میں گزار رہا ہوں، یہ میری زندگی کے بہترین دن ہیں، اور جس مقصد کیلئے اب میں نکل رہا ہوں، وہ کسی بھی طرح کے طویل زندگی سے بہتر ہے۔ یہ میری خواہش ہے کہ میں جس مقصد کیپلئے نکل رہا ہوں، وہ کامیابی سے مکمل کرسکوں اور یہ میرا یقین اور ایمان ہے کہ جب ہماری بندوق وہاں گرے گی تو اسے سنبھالنے کئی اور نوجوان کسی دوسرے کونے سے نکل پڑیں گے، یہ سلسلہ ہمارے وطن کی آزادی تک جاری رہیگی۔ میری آخری گذارش یہ ہےکہ کچھ بھی ہوجائے اس بندوق کو گرنے نہیں دینا۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں