مزاحمت زندہ باد ۔ منیر بلوچ

866

مزاحمت زندہ باد

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مزاحمت ہی قوموں کو زندہ رکھتی ہے. بغیر مزاحمت کے قومیں دنیا کے افق پر موجود تو ہوتی ہیں لیکن ان کی زبان، ان کی ثقافت دوسرے قوموں کے رنگ میں رنگ کر اپنی قومی پہچان کو مسخ کردیتی ہے. ریڈانڈین اور ابورجینز اس کی مثالیں ہیں، جنہوں نے برطانوی سلطنت کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی قومی پہچان سے دستبردار ہوئے اور دنیا کے افق سے غائب ہوگئے.

اگر یہ قومیں مزاحمت کرتی ہیں، آج بھی زندہ قوموں کی حیثیت سے موجود ہوتیں۔

بات کریں بلوچ قوم کے زندہ ہونے کی تو بلوچ غلامی کے باوجود ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے اور جب تک مزاحمت بلوچ کی فطرت میں شامل ہے بلوچ نہ غلام رہے گا مستقل طور پر اور نہ ہی بلوچ قوم دنیا کے افق سے لاپتہ ہوگا.

بلوچ کی مزاحمتی تاریخ صدیوں سے جاری ہے، حمل جئیند، نواب محراب خان،بلوچ خان، اکبر بگٹی، بالاچ مری، بلوچ مزاحمت کی اعلی مثالیں، جنہوں نے قوم کو زندہ رکھنے کے لیے عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہہ کر جام شہادت اور مزاحمت کی تاریخ رقم کی. بلوچ ہر دور میں، ہر ظالم کے سامنے سینہ سپر رہ کر تاریخ رقم کرتا رہا ہے اور رہے گا.

مجید بریگیڈ کی تاریخ سے ہر بلوچ واقف ہے. یہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ ہی ہے جنہوں نے بلوچ مزاحمت کو ایک نئی روح بخش کر ریاست اور اسکے اداروں کی نیندیں حرام کردیں. شہید جنرل استاد اسلم بلوچ کا جنگ کو تیز کرنے کا فیصلہ اور مجید بریگیڈ کے قیام کا فیصلہ بلوچ تاریخ کا ایک بے مثال فیصلہ ہے جس کو بلوچ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.

شہید درویش کی قربانی ہو، شہید ریحان جان کا جذبہ شہادت ہو، شہید سربلند جان کا سر پر کفن باندھ کر دشمن پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ ہو کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرنے والے ہوں، سربلند کا گوادر میں فدائی حملہ ہو یا چائنہ قونصلیٹ کے فدائین، یہ تاریخ میں ہمیشہ امر رہیں گے اور مزاحمت ہمیشہ زندہ رہے گی۔

حالیہ پنجگور اور نوشکی حملہ اپنے نوعیت کا منفرد اور اہم واقعہ ہے جس نے نہ صرف پاکستانی اداروں پر کاری ضرب لگائی ہے بلکہ بلوچ عوام کے جوش و جذبے میں بھی اضافہ کردیا ہے، آج بلوچ کےہر نوجوان کے بحث کا موضوع بلوچ مزاحمت کار اور پنجگور اور نوشکی واقعہ ہے. کراچی سے تربت، شال سے قلات، خضدار سے آواران ہر جگہ موضوع بلوچ قومی تحریک اور بلوچ مزاحمت کی نئی لہر ہے.

بلوچ فرزند جہاں بھی ہیں، اسکی فطرت مزاحمت ہی ہے اور یہ مزاحمت ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس مزاحمت کو ایندھن اپنے خون سے بلوچ سرمچار دیتے رہیں گے. جب تک بی ایل اے اور دیگر مزاحمتی تنظیم کا وجود ہے مزاحمت زندہ رہے گی اور یہی مزاحمت بلوچستان سے پاکستانی افواج کے اخراج کا باعث ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں