لیاری ۔ اسلم آزاد

528

لیاری

تحریر: اسلم آذاد

دی بلوچستان پوسٹ

“لیاریء گٹر منا چو سائے پیما دوست بنت”
مبارک قاضی
سامراجی پالیسیوں کا شکار لیاری بلوچستان کا ایک تاریخی شہر ہے جس نے جدید بلوچی ادب، سیاست اور میوزک کو تقویت دی ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو لیاری بلوچ قوم کے سیاسی شعور کا مرکز رہا ہے ” انجمن اتحاد بلوچاں” تنظیم نے 1935 میں لیاری سے جنم لیا پھر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) نے 1967 میں ایک شکل اختیار کیا۔ جو کہ بلوچ قوم کا ایک عظیم الشان قومی سیاسی تنظیم ہے۔

لیاری بلوچ قوم کا نہ صرف علمی، ادبی، سیاسی بلکہ معاشی مرکز بھی رہا ہے، جہاں بلوچ قوم کو روزگار اور کاروبار کے مواقع ملے ہیں۔

لیاری کی عوام نے پورے بلوچستان سے آنے والی تمام بلوچوں کو تہہ دل سے عزت و احترام دیا ہے، ہر مشکل سیاسی سماجی حالت میں لیاری کے عوام نے بلا جھجک بلوچستان کے عوام کا ساتھ دے کر اپنی بلوچیت اور غیرت مندی کا ثبوت دیا ہے۔

وجود میں آنے کے بعد پاکستان نے پورے ملک میں اپنی سامراجی ہتھکنڈوں کو استعمال کیا ہر سادہ لوح بلوچ ان ہتھکنڈوں کا شکار رہا اس صورت میں لیاری بھی سامراجی زد سے محفوظ نہ رہ سکا، لیاری کے مظلوم پر گینگ وار مسلط کیا تاکہ انکی استحصال میں ریاست کو آسانی ہو۔

پہلے انگریز سرکار نے بلوچوں کو تین ممالک پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم کیا، پاک و ہند پارٹیشن کے بعد پاکستانی ریاست نے 1948 سے تقسیم اور حکمرانی ( Divide and rule ) پالیسی پر عمل کرکے پھر بلوچوں کو تین صوبوں بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں تقسیم کیا، پھر ان کو مخلتف سیاسی، علاقائی، قبائلی، مذہبی اور لسانی گروہوں میں بانٹ دیا، یہاں تک یہ سلسلہ ختم نہیں بلکہ ریاست پھر ان کو مختلف مصنوعی نام نیاد تنظیموں میں بانٹ دیا تاکہ ان کی اجتماعی قوت تقسیم در تقسیم کا شکار ہوجائے،تاکہ وہ اپنے حق اور انصاف مانگنے کے قابل نہ رہیں۔ اس طرح کی سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی حربے کا استعمال کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا اس لیے آج پورا بلوچ قوم اجتماعی طور پر پاکستان کا غلام ہے ۔

یہ پاکستانی ریاست کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ بلوچ قوم کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جائے اور انکے درمیان سیاسی، سماجی، اخلاقی اور جذباتی رشتوں کو ختم کرکے انہیں نیست نابود کیا جائے، مہر و محبت اور دوستی کی بجائے ان کے دل میں ایک دوسرے کے خلاف بغض و شک، وہم و گمان پیدا کیا، لیاری کا ہر بلوچ دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

جب ریاست نے محسوس کیا کہ بلوچستان کے لوگوں کو لیاری کے عوام کے ساتھ انتہائی زیادہ جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی ہے تو اِس ریاست نے ایک مرتبہ پھر اپنی جبری پالیسیوں کو استعمال کرکے لیاری کو بلوچستان سے علیحدہ کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے اور آج بھی ریاستی پولیس بلوچستان سے آنے والے لوگوں کو زلیل و خوار کرتا ہے تاکہ وہ آئندہ کراچی کا رخ نہ کریں، لوگوں کا جو آپسی رشتہ داری ہے وہ ختم ہو جائے۔

گنجان آباد شہرے کراچی میں جہاں جہاں نظر پھیلائیں ہر طرف خوشحالی اور ترقی دیکھنے کو ملے گا ، لیکن جوں جوں آپ لیاری کے حلقہ احباب میں داخل ہونگے وہاں ریاست کی معیشت کش پالیسیوں نے لیاری کے خوبصورت لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن اور مفلوج کیا ہواہے۔ اس سلسلے میں بلوچی زبان کے شاعر مبارک قاضی صاحب فرماتے ہیں۔

استیں جاگہ کے نام لیاری انت
ہر کجا چاراں گژن و واری انت

بلوج قوم کو سامراجی قوتوں سے بالاتر ہوکر لیاری اور بلوچستان کی باشعور نوجوان کو چاہیے اپنی سیاسی، سماجی، ثقافتی، جذباتی، ادبی اور قومی تعلقات کو مزید مستحکم کریں بصورت دیگر وہ دن دور نہیں بلوچستان والے اپنے آبائی وطن کراچی کو پہچاننے سے کتراتے ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں