سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے لسبیلہ کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا فیصلہ حکومت بلوچستان کو ایک ہفتے میں واپس لینے کا الٹی میٹم دے دیا-
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے صدر مقام اوتھل میں قبائلی عمائدین، سیاسی اور سماجی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ممبر بلوچستان اسمبلی صالح بھوتانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ لسبیلہ کی بقا پر کوئی وار کریں گے تو جام کمال کا ہاتھ ان کی گربیان تک پہنچے گا جام خاندان نے اسلام اور پاکستان کے لیے نہ صرف ریاست لسبیلہ کو پاکستان میں ضم کیا بلکہ اپنی اراضیات گھر تک ملک کے دفاتر کے لیے وقف کیے-
انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی اس فیصلے پر قائم ہیں اور انشاءاللہ آنیوالی نسلیں بھی قائم رہیں گی صالح بھوتانی ہمیں محب وطنی کا درس نہ دیں الحمداللہ یہ ہم نے یہ درس پڑھا ہے اور حفظ کرچکے ہیں-
انہوں نے صالح بھوتانی کو چیلنج کیا کہ وہ پاکستان کے لیے اپنا صرف ڈیفنس والا ایک بنگلہ تو دیں تو اندازہ ہوگا باتیں تو پاکستان سے محبت کی کرتے ہیں لیکن نجی محفلوں میں جو صالح بھوتانی مخالفت میں باتیں کرتے ہیں اس سے سب آگاہ ہیں یہ کھانے کے اور دکھانے کے اور دانت زیادہ دیر چلنے والے نہیں ہیں-
سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ اس نااہل بلوچستان حکومت سے یہی امید تھی کہ سی ایم سیکریٹریٹ سے ایس اینڈ جی ڈی اے کو کہا گیا کہ ضلع حب کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے اور بغیر کسی کاغذ کاروائی کے کابینہ نے ایجنڈا منظور کرلیا-
انہوں نے کہا کہ ضلع حب کے حوالے سے صوبائی کابینہ کے ایجنڈے کی خبریں سامنے آنے کے بعد اوتھل میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ صالح بھوتانی کا تعلق لسبیلہ سے ہی ہے اور وہ اس طرح کے فیصلے میں شامل نہیں ہونگے جس کے رد عمل میں صالح بھوتانی کے فخریہ انداز میں لسبیلہ کو تقسیم کرنے کا دعوٰی کیا اور ان کے متعلق نا مناسب باتیں کیں تو صالح بھوتانی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ جام کمال اپنی ذات کے معاملے پر بہت کچھ برداشت کرچکے ہیں اور شاید مزید کروں لیکن لسبیلہ کی بقاء سالمیت پر کوئی حملہ کیا تو صالح بھوتانی کے گریبان تک ہاتھ پہنچے گا –
انہوں نے مزید کہا کہ صالح بھوتانی حب، وندر، گڈانی ،ساکران اور دریجی سے نو دفع ایم پی اے منتخب ہوئے تو سوال ان سے یہ ہے کہ ان کو اپنے حلقے میں ترقی دینے سے کس نے روکا تھا آج حب کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے حب کی آبادی کو مدنظر رکھ کر یہاں یونیورسٹی ہونی چاہیے تھی اسی طرح گڈانی ڈام و دیگر علاقوں میں تعلیمی ادارے اور سہولیات ہونی چاہیے تھی حب میں جام غلام قادر ہسپتال، جام غلام قادر اسٹیڈیم، سوک سینٹر سمیت کئی منصوبے جام غلام قادر نے دیے-
انہوں نے کہا کہ وہ جب وزیراعلٰی بلوچستان منتخب ہوئے تو صالح بھوتانی کو کھل کر کہا کہ ان کا حب سے ایم پی اے بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے حب کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ دیا جائے لیکن انہوں نے کوئی منصوبہ نہیں دیا جبکہ حب گڈانی میں پہلے سال ترقیاتی سکیمات شامل کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے واویلہ کیا کہ جام صاحب میرے حلقے میں مداخلت کررہے ہیں، حب مغربی بائی کو ان کے دور حکومت میں تکمیل تک پہنچایا گیا اسی طرح ساکران بائی پاس کا منصوبہ شروع کیا اور ایسٹرن بائی پاس کا سنگ بنیاد رکھا جبکہ ایک اور بائی پاس پائپ لائن میں تھا حب کی ترقی کے لیے پینتس سے چالیس کروڑ مختص کیے اسی طرح گڈانی کے منصوبوں کے لیے مجبورا فنڈز مختص کیے صالح بھوتانی چند کمیونٹی ہال۔ ٹیوب ویل اور نالی کو ترقی سمجھتے ہیں جس دریجی کی خوبصورتی کی باتیں کررہے ہیں شاید کراچی، پنجاب، اسلام آباد میں بیٹھے کسی اینکر، ایم این اے کو دریجی کا علم نہ ہوا لیکن ہم سارے دریجی جاتے رہتے ہیں کیا ان کے گھر کے علاوہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی بنیادی سہولیات ہیں جو اپنے حلقے کے لیے اس قدر پریشان ہیں کہ وہ دریجی میں کئی ڈیمز بنا سکتا ہے –
جام کمال نے کہا کہ پیرکس، ساکران میں کیوں کوئی ڈیم نہ بنا سکا؟ ہماری حکومت نے پیرکس ڈیم کا کام شروع کیا-
انہوں نے کہا کہ جو کہتے ہیں کہ ہم نے کام نہیں کیا وہ ان کے حلقوں میں بنے روڈز کا جائزہ لیں تو بھوتانی کے حلقے کے چار چکر لگا جا سکیں گے- صالح بھوتانی نے لسبیلہ کو تقسیم کرنے میں کردار ادا کیا تو ان کے لیے لسبیلہ کی سرزمین تنگ ہوجائے گی لسبیلہ میں مقیم تمام اقوام باشعور اور غیور ہیں وہ اپنے ضلع کا دفاع اچھی طرح جانتے ہیں-
اگر وزیراعلی قدوس بزنجو اور صالح بھوتانی نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا تو صرف سڑکوں پر احتجاج نہیں کریں گے ہر وہ اقدام کریں گے جن سے ان کو فیصلہ واپس لینا پڑے گا صالح بھوتانی جس نے مرحوم جام یوسف سے اس لیے اتحاد ختم کیا تھا کہ انہوں نے پیر گیلانی کو اپنی سیٹ پر منتخب کروایا جس پر صالح بھوتانی نے وندر میں مشاورت کا پروگرام رکھا تھا اور وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ لسبیلہ کے لوگوں سے مشاورت کرتے ہیں تو ان کی بصیرت پر حیرانگی ہوتی ہے کہ جو ضلع کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر کسی سے کوئی مشاورت نہیں کررہے کیا وہ صرف اس لیے ضلع چاہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی، چار ایکسئین، چار آٹھ افسران ان کے کنٹرول میں رہیں تو انشاء اللہ ان کو یہ کرنے نہیں دیں گے-
انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو چار سال اپنے حلقے تک نہ جاسکے لوگ ضرور ناراض ہونگے اور ناراضگی کا اظہار کریں گے کہ جب منتخب لوگ اپنے حلقے میں نہیں جاتے آواران اور پنجگور کے ایم پی اے چار سال سے حلقے میں نہیں جاتے اور وہ حب میں رہتے ہیں اور وہ کسی کے کہنے پر لسبیلہ کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو مشورہ ہے کہ کسی کو خوش کرنے کے لیے ایسے فیصلے نہ کریں جن سے معاملات ہاتھ سے نکل جائیں، انہوں نے لسبیلہ کی تقسیم کی سازش کی مذمت کرتے ہوئے اس پرپوزل کو ایک ہفتے تک واپس لینے کابھی الٹی میٹم دے دیا-