عالمی رسا کشی میں پھنسا یوکرین ۔ حماد بلوچ

482

عالمی رسا کشی میں پھنسا یوکرین

تحریر: حماد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بائیس فروری رات گئے روس باڈر سے منسلک یوکرین کے زیر انتظام علاقوں پر بمباری شروع ہوئی، روسی فوج اس سے قبل ایک واضح تعداد میں جنگی ساز و سامان کے ساتھ یوکرین کے باڈر پر تین اطراف سے موجود تھا یوکرین سمیت دنیاء نے روسی حملے کا خطرہ بھانپ لیا تھا اس وقت یوکرین کے لئے سب سے بڑی مشکل اپنے دارلحکومت کو بچانے کی ہے کیونکہ روسی دستے بیلا روس کے رستے سے پہلے ہی یوکرین کے دارلحکموت کئیو تک پہنچ چکے ہیں اب روسی فوج کئیو پر قبضہ جمانے کی تک و دو میں ہیں تاکہ وہاں موجود یوکرینی صدر و دیگر ملک چھوڑ کر فرار ہوجائیں-

روس اور یوکرین کا مسئلہ سویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکی سرد جنگ سے مختلف نہیں اسی طرح یہ مسئلہ بھی تبھی کا ہے روس ایک مظبوط معشیت کے ساتھ ایک طاقتور ملک ہے یوکرین اس سے منسلک ایک کمزور ہمسایہ جبکہ یہاں قابل زکر نقطہ یہ ہے کہ روسی صدر پوتن ایک بنیاد پرست اور سخت گیر سیاست دان ہے روسی صدر کا سیاسی نقطہ نظر آج بھی سویت حدود پر روس حکومت یا روسی اثر ورسوخ کی بحالی ہے-

تفصیلی پس منظر میں جائے بغیر موجودہ گشیدیگی کا زکر کرونگا یوکرین کی پوزیشن آج ویسے ہی ہے جیسے اس سے قبل سویت یونین اور امریکہ کے سرد جنگ میں پھنسا افغانستان اس سرد جنگ کے چلتے یوکرین بدلتے وقتوں کے ساتھ دونوں طاقتوں کی جھولی میں قیام کرتا رہا ہے اس وقت یوکرین میں موجودہ حکومت روس مخالف اور امریکی یعنی (نیٹو) ممالک حمایت یافتہ گروہ کی ہے حالانکہ 2014 سے قبل یوکرین میں جو حکومت قائم تھی وہ روس حمایت یافتہ تھی جسے بعد میں یوکرین میں عرب اسپرنگ” طور پر شدید احتجاجوں کے بعد عوام نے ہٹا دیا تھا-

اب یوکرین روس کے گود سے نکل کر نیٹو حمایت یافتوں بلاک میں شامل ہوگیا اور سب سے پہلے یوروپین یونین کا حصہ بنایا گیا روس کے لئے یے قابل قبول نہیں تھا نیٹو لابی یوکرین میں روسی حمایت یافتہ حکومت گراچکے تھیں اب روس کو اپنی طاقت دکھانے اور نیٹو حمایت یافتہ یوکرینی حکومت کو سبق سکھانے علاوہ کوئی اپشن نہیں تھا جہاں روس نے روسی نسل یوکرینی شہریوں کو مسلح بغاوت پر آمادہ کرکے یوکرین کے تین بڑے علاقوں پر باغیوں کا قبضہ قائم کرلیا اور اسی طرح باغی علاقہ کریمیاء آزاد کرکے روس کے زیر انتظام کرلیا گیا اور دیگر دو علاقے جہاں روسی نسل باغیوں کا کنٹرول اس قدر نہیں تھا تو وہاں امن مشن کے نام پر اپنی فوجی تعینات کردئے-

اس وقت امریکہ نیٹو کے زریعے روس کے قریب آرہا ہے در اصل امریکہ ماضی کے طرح روس کو ایک غیر ضروری جنگ میں ڈالنا چاہتا تھا اگر امریکہ یوکرین میں آنا بھی نہیں چاہتا پر اس مسئلے کو اس جنگ میں شامل ہوئے بغیر انجام دیگا- جیسے سویت یونین کے خلاف مجاہدین کے زریعے افغانستان میں جو جنگ چھیڑی گئی اور اس کے زریعے ایک تو روسی معیشت اس جنگ سے متاثر ہوگی اور امریکہ سمیت نیٹو کو روس کے خلاف پابندیوں کا جواز بھی مل جائے گا-

کل ملا کر بات یہی بنتی ہے کہ یہ جنگ یوکرین کی کبھی ہے ہی نہیں امریکہ نے جہاں افغانستان میں مجاہدین بنائے وہیں یوکرین میں روسی سوشلسٹ سیٹ آپ حکومت کو ہٹاکر لبرل سیٹ اپ کے زریعے مزید ایک امریکی حمایت یافتہ حکومت قائم کرلی اب لبرل اور سوشلسٹ سسٹم میں جو سرد جنگ صدی سے چلی آرہی ہے وہ کئی اقوام کو انکی زمین کو نگل چکی ہے مزید یہ اس جنگ کا رزلٹ کچھ بھی ہو نتیجہ دیگر طاقتوں کے لئے نکلے گا اور یوکرین کے باسیوں کے لئے بارود ، بھوک اور کھنڈرات چھوڑ دیئے جائینگے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں