شیہک جلیس ایک قاتل
تحریر: رگام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں پروم کپ کے مقام پر ایک ٹریفک حادثے میں مسلح تحریک سے منحرف کمانڈر ماسٹر سلیم کے بھتیجے اور منںحرف سرمچار شیہک جلیس ہلاک ہوگئے جس کی موت پر بحثیت بلوچ جہد کار میں خوش تھا اس کے چند وجوہات ہیں جن کو میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس حوالے سے لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یورپ میں بیٹھے ایک محترم دوست نے شیہک جلیس کو منحرف کہنے پر ناراضی کا اظہار اور اس عمل کو ناپختگی اور نابالغی کہا، مجھے افسوس یورپ میں بیٹھے اس سیاسی کارکن پر ہوتا ہے جو زمینی حقائق سے نا واقف ہوکر یا شاید جانتے ہوئے ایک ایسے قاتل کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے جس نے ذاتی مفادات، عیش و عشرت کیلئے مزاحمتی تحریک کو خیر باد کہنے کے بعد ایک مسلح ڈیتھ اسکواڈ بنایا اور اپنے پہلے کاروائی میں اپنے سالے اختر شمبے زئی کے ذریعے ایک عظیم جہد کار نور جان کو پروم کے مقام پر شہید کروایا۔
محترم سیاسی کارکن آپ کا یہ قربانی دینے والا شیہک اختر کو پروٹوکول کے ساتھ تربت لیجاتا ہے، آج کل اختر تمپ میں تمہارے “شہید شیہک” کے گھر میں رہائش پزیر ہے جبکہ جس وقت ریاستی کارندہ شیہک جلیس ٹریفک حادثے کا شکار ہوتا ہے اس وقت بھی وہ مسلح تھا جس کی گواہی علاقہ مکین دیتے ہیں جنہوں نے اسے وہاں دیکھا۔
مزید برآں محترم آپ اپنے ہیرو ماسٹر سلیم سے سوال کریں کہ آپ تو ایک کمانڈر تھے آپ نے چابہار اور کراچی ملیر میں کن ذرائع سے تحریک سے وابستہ ہوتے ہوئے کروڑوں روپے کے بنگلے خریدے ہیں۔ مذکورہ دوست لکھتا ہیں کہ “بلوچ سیاسی کلچر میں پائی جانے والی وہ منفی رویے ہی وہ اسباب تھیں جس سے شئے حق جیسے جفاکش جہدکار بلوچ قومی تحریک سے کنارہ کرگئے”، میں شاید اس امر سے مکمل انکار نہیں کرسکتا کہ بعض معاملات میں رویوں کے باعث کئی افراد کنارہ کش ہوئے لیکن کسی رویے کو جواز بناکر کسی کو بلوچ جہدکاروں کے خلاف مسلح ہونے اور ان کیخلاف کام کرنے کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی ہے۔ نظریے کے سامنے کوئی بھی منفی رویہ، پروپیگنڈہ رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے، کوئی “جفا کش” جہدکار کسی ایک شخص یا یونٹ کے رویے کو جواز بناکر دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکتا ہے بلکہ وہ اپنے ان رویوں کو ٹھیک کرنے یا پھر نئی راہیں متعین کرکے اپنا جہد جاری رکھتا ہے لیکن یہاں یاد رکھنا چاہیے شیہک جیلس کو ہیرو پیش کرتے ہوئے مذکورہ دوست نے ایک بھی منفی رویے کا ذکر نہیں کیا بلکہ بیک جنبش قلم پورے تحریک کو روند ڈالا گیا۔
یہاں کسی سے کوئی ناانصافی نہیں ہوئی ہے شیہک و اس کے ہم رقابوں نے تحریک کے نام پر مال و دولت کمایا اور آج جب اپنے موج مستی کے دوران حادثے کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتا ہے تو کوئی فوراً اس کو ہیرو پیش کرنے کی کوشش کرکے بلوچ شہداء کے خون سے نانصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی تمپ کے چھ سرمچار گذشتہ دنوں شہید ہوئے، کیا مذکورہ دوست نے تھوڑی سی زحمت کی کہ ان کے بارے میں لکھنے کی؟ محترم کل آپ اپنے چچا ماسٹر ستار صاحب کو اس بناء پر ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرینگے کہ وہ بھی ایک زمانے میں بلوچ تحریک کے ایک اہل ہستی تھے۔
جناب ماسٹر سلیم بلوچ تحریک کے رویوں سے دل برداشتہ ہوکر مسلح جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوئے نہ کہ شیہک جلیس، محترم آپ کے ہمدرد تحریک سے وابستگی کے دوران سب کیلئے محترم تھے۔ آپ کونسی ناانصافی کی بات کررہے ہیں۔ محترم جن لوگوں نے بیس سال تک قومی تحریک کیلے قربانی دی وہ کل ہیرو تھے، جنہوں نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جو مستقل مزاجی سے ایک ہی مقصد آزادی کیلئے شب و روز جہد کررہے ہیں وہ پوری قوم کیلئے آج بھی قابل احترام ہیں لیکن آج جنہوں نے نوجوانوں کے خون کا سودا کیا جو قومی جہد کیخلاف مسلح ہوئے جس کی گواہی بلوچ قوم دیتی ہے، وہ کسی طور پر ہیرو نہیں کہلائے جاسکتے ہیں بلکہ دشمن کہنے پر اس عمل کا حصہ بننے والوں سے یہ زمین خود شیہک جیلس جیسوں کو نشان عبرت بناکر بدلہ لیتی رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں