سیندک پراجیکٹ میں چینی کمپنی کے پابندیوں کیخلاف احتجاج کا سلسلہ رات بھر جاری رہا جبکہ علاقے میں انٹرنیٹ کو معطل کردیا گیا ہے۔
چینی کمپنی کیخلاف احتجاج کا نیا سلسلہ گذشتہ روز شروع ہوا جہاں خواتین کی بڑی تعداد نے دس کلو میٹر پیدل مارچ کرنے کے بعد اپنا احتجاج ریکارڈ کیا، ذرائع کے مطابق علاقائی معتبر نے مقامی گاڑیوں کو خواتین کو سہولت فراہم نہ کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر خواتین نے پیدل مارچ کرنے کا فیصلہ اٹھایا۔
کمپنی ملازمین سائٹ کے اندر احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے ہیں جبکہ ان کے خواتین باہر احتجاج کررہے ہیں جو گذشتہ رات بھی جاری رہا۔ مقامی صحافی کے مطابق علاقے میں یوفون موبائل سروس اور پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ بند کردی گئی ہے جبکہ مذاکرات کے کئی دور چلے لیکن بات نہ بن سکی۔
چینی کمپنی پالیسی کے خلاف احتجاج گذشتہ دنوں خواتین کی جانب سے شروع کی گئی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ چینی کمپنی ملازمین کو چھ سے نو ماہ تک گھر آنے کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ مقامی لوگوں کو علاج کی سہولت کے لئے سیندک ہسپتال تک جانے کی اجازت نہیں اور علاقے میں ایس او پیز کے نام پر تمام نقل حرکات پر پابندی عائد کرکے علاقہ کو نو گو ایریا بنایا گیا ہے۔
ٹی بی پی نے سخت پابندیوں کے محرکات کے بارے میں جاننے کیلئے ایک مقامی صحافی سے رابطہ کیا جس کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں نوشکی اور پنجگور میں ہونے والے حملوں کے بعد یہ پابندیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جبکہ ملازمین کو پہلے ہی حفاظتی ٹھیکے لگ چکے ہیں علاوہ ازیں پالیسی کے تحت پہلے ملازمین کو چھٹی سے واپسی پر چودہ دن قرنطینہ میں رکھا جاتا تھا۔
صحافی نے بتایا کہ مارکیٹس اور دفاتر کی بندش، انٹرنیٹ کی معطلی اس امکان کو تقویت بخشتی ہے کہ چینی کمپنی عدم تحفظ کا شکار ہے جس کے باعث اس نوعیت کی سخت پابندی دیکھنے میں آرہی ہے۔
خیال رہے رواں مہینے کے دو فروری کو بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے فدائین نے نوشکی اور پنجگور میں پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور کے ہیڈکوارٹرز کو شدید نوعیت کے حملوں میں نشانہ بنایا جہاں چار روز تک ہیڈکوارٹرز حملہ آوروں کے قبضے میں رہیں، یہ حملے بی ایل اے مجید بریگیڈ کے سولہ فدائین نے کیا تھا جس کی تصدیق بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ نے کی۔
بی ایل اے کے خودکش حملہ آوروں پر مشتمل یونٹ مجید بریگیڈ اس سے قبل دالبندین، کراچی اور گوادر میں چائنیز انجینئروں اور ورکروں کو نشانہ بنا چکی ہے۔
سیندک میں ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے تاحال ضلعی انتظامیہ نے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے جبکہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہیں میڈیا پر بھی کوریج نہیں دی جارہی ہے۔