سامراجوں نے ہمیشہ محکوم اقوام کے خلاف نوآبادیاتی پالیسی کے تحت زبان کا حربہ استعمال کرتے رہے ہیں ۔ این ڈی پی

291

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ زبان کے وجود نے انسان کے ذرائع آمدنی سے لے کر ذرائع ابلاغ کو فروغ دیا ہے ۔ زبان ہی سے کسی قوم کے تہذیب و تمدن ،ثقافت اور تاریخ کے عکس نمایاں ہوتے ہیں ۔ زبان اقوام کی اجتماعی زندگی اور سوچ کی تعمیر کرتی ہے ۔

ترجمان نے کہا کہ اس دن کی تاریخ پر نظر دوڈائیں تو بنگالی بولنے والے اس وقت پاکستان میں اکثریت میں ہونے کے باوجود بھی انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا جس کے بر عکس قلیل تعداد میں بولنے والے اُردو زبان کو قومی و سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ، جس کے خلاف بنگالی قوم احتجاج کرتا رہا لیکن ریاست نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت اکثریت بنگالی قوم کے مطالبے کو نظر انداز کرتی رہی جس کی وجہ سے بنگالی قوم مجبور ہو کر اپنی مادری زبان کے خاطر احتجاج کر رہے تھے جس کی وجہ سے موجودہ پاکستان میں انہیں لسانی بنیادوں پر انہیں تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔ اسی لئے 21 فروری 1956 کو سابقہ ایسٹ پاکستان, بنگلہ دیشی نوجوان طلبہ نے اپنی مادری زبان کو نظرانداز کرنے پر احتجاج کیے جس کی پاداش میں بنگالی طلبہ پر فائرنگ کے دوران پانچ بنگالی طلبا اپنی زبان کو بچاتے بچاتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دنیا میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے ۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے 21فروری کو ہر سال مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ۔

ترجمان نے کہا اسی طرح آج بلوچ قوم اس وقت کئی داخلی اور خارجی سامراج قوتوں کے دلدل میں دھکیلا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ریاست سامراجی اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت بلوچ قوم کو زبان کے نام پر تقسیم کرنے کیلئے مختلف حربے بروئے کار لائی جا رہی ہے ، لہذا بلوچ قوم اور خصوصا بلوچ نوجوانوں پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان سامراجی حربوں کے سامنے مضبوط چٹان بن کر تما م نوآبادیاتی پالیسیوں کو ناکام بنائیں گے ۔ بلوچ کو بحیثیتِ مظلوم قوم اپنی قومی بقا کے ساتھ ساتھ اپنی زبانوں کی بھی رکھوالی کرنی چاہئے ۔ جب قوموں کی زبانیں مر جاتی ہیں تو ایک زبان نہیں مرتی بلکہ اس قوم کی اجتماعی تشخص، قومی اثاثہ ، قومی سوچ و تہذیب و تمدن مر جاتے ہیں ۔