روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے مشرقی یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے انتظامی آرڈر پر دستخط کردیے ہیں۔
عالمی اور روسی خبر رساں ایجنسیوں و اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر پیوٹن نے قوم سے اس ضمن میں خطاب کیا جو تقریباً نصف گھنٹے سے زیادہ طویل تھا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں سوویت یونین ٹوٹنے، یوکرین کے معاملات، نیٹو اور امریکہ کے اقدامات پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔
قوم سے اپنے خطاب کے اختتام پر روس کے صدر پیوٹن نے کہا کہ میں نے یوکرین کے دو علاقوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔
انہوں ںے روس کی پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ جلد از جلد اس کی توثیق کرے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ روس کے عوام ان کے اقدام کی حمایت کریں گے۔
واضح رہے کہ کچھ دیر قبل انہوں نے اپنی سیکیورٹی کونسل سے خطاب میں کہا تھا کہ مشرقی یوکرین قدیم روسی سرزمین ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ماڈرن یوکرین روس نے تخلیق کیا ہے۔
موقر نشریاتی ادارے الجزیرہ اور واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے واضح طور پر کہا ہے کہ یوکرین روسی تاریخ کا ایک لازمی باب ہے۔
صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ سوویت ریاستوں کو یونین سے نکلنے دنیا بھی پاگل پن تھا۔
انہوں نے کہا کہ یو ایس ایس آر کا خاتمہ کمیونسٹوں کے ضمیر پر بوجھ ہے۔روسی صدر نے یہ سب باتیں ایک ایسے وقت میں کی تھیں کہ جب روس اوریوکرین کے درمیان موجود تنازع مزید شدت اختیار کرچکا ہے اور پوری دنیا کی نگاہوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
عالمی نشریاتی اداروں کے مطابق روس کے صدر نے ٹیلی فون کے ذریعے باقاعدہ فرانس اور جرمنی کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ وہ مشرقی یوکرین کے دو علاقوں دو نیتسک اور لوہانسک کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس حوالے سے صدر پیوٹن نے سب سے پہلے اپنی سیکیورٹی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے عندیہ بھی دیا تھا۔
کریملن کی جانب سے بنا کسی جھجک کے دونوں مغربی ممالک کو بتایا گیا تھا کہ اس حوالے سے بہت انتظامی احکامات پر دستخط بھی کردیے جائیں گے۔ اس ضمن میں کریملن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمنی اور فرانس نے یہ جاننے کے بعد مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسیوں کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ روس کے عزائم آشکار ہونے کے بعد یوکرین کے صدر نے ہنگامی بنیادوں پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔
یورپی یونین نے اس حوالے سے ایک مرتبہ پھر واضح کیا تھا کہ اگر روس نے مشرقی یوکرین کی علیحدگی پسند ریاستوں کو تسلیم کیا اور یا ان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی تو معاشی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔
واضح رہے کہ روس اگر علیحدگی پسند علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے فوجی دستے ان علاقوں میں داخل ہوسکیں گے لیکن نتیجتاً سفارتی دروازوں کی بندش طویل ہو جائے گی اور جنگ کا امکان بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔