حافظ فراز بلوچ سے پاسپانِ وطن کا سفر ۔ زامران بلوچ

997

حافظ فراز بلوچ سے پاسپانِ وطن کا سفر

تحریر: زامران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید حافظ فراز بلوچ عرف درویش کا تعلق ایک ایسے بلوچ گھرانے سے ہے جہاں تقریباً ہر دوسرا بندہ پاکستان پرست اور غلامی سے بے خبر ہیں، اگر آپ اس قبیلے کے سامنے کسی آزادی کی بات کریں اور انکو غلامی جیسے غلیظ لفظ کے بارے میں تفصیلات دیں اور انکو سمجھا دیں گے غلامی کیا ہوتی ہے تو سامنے سے جواب آتا ہے (سنگ او سر میڈینگ نا بنت) انکو پاکستانی آرمی کیساتھ لڑنے والے سارے پاگل نظر آتے ہیں لیکن آج اِسی گھرانے سے نکلا ایک پاگل جوان نے زمین کی عشق میں پاگل پن کی ساری حدیں پار کر دی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ شہید درویش کی شہادت نے اُنکو اِس بات پہ قائل کیا ہوگا کہ واقعی ایک سر نے سنگ کو شکست دیا ہے، سر پتھروں سے لڑ رہے ہیں سر پتھروں کو توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

اب آتے ہیں نام درویش کی طرف تو انکا تعلق شہید بابا درویش کے گاؤں سرنکن سے ہے، بابا درویش ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے اُنکی سادہ مزاجی نے کافی بلوچ جوانوں کو متاثر کیا، مجھے امید ہے اب اِس گھرانے سے بلوچ درویش نکل کر اپنی وطن کی دفاع میں لڑتے رہیں گے کیونکہ شہید درویش کی قربانی شاید خدا نے انکی آنکھیں کھولنے کیلئے قبول فرمایا ہوگا۔

اب ایک اور بات راز داری کے ساتھ شہید درویش اس آزادی کی جدوجہد سے پچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے منسلک تھا مگر جب گھر فون کرتا تو ماں سے کہتا میں تبلیغ میں ہوں اور وہ سچ میں بلوچ تحریکِ آزادی کی تبلیغ میں تھا، شہید درویش کی شہادت سے ہم ایک مخلص انسان سے محروم ضرور ہوئے ہیں مگر اِس قربانی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور کئی لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس جنگ میں اکیلے ڈاکٹر انجنیئر شاعر ادیب نہیں بلکہ حافظ قرآن خطیب او ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں اور بیشک بلوچ حق پر ہیں۔

میں نے کچھ سال پہلے ایک دفعہ شہید کو یہ گانا گن گناتے ہوئے سنا
وتی ہلک ءَ ترا من تاچیناں
یلیں قمبران کاراں نادیناں
اِس سے مجھے آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ شہید درویش ایک مزہبی انسان کیساتھ ساتھ ایک شدید انقلابی شخصیت کا مالک تھا اور اُنہوں نے یہ بات 16 فروری کو کماندار نور سلام نور کیساتھ پاسبانِ وطن کا خطاب لیکر ثابت کر دیا۔ بیشک خدا جسے چاہے عزت دیتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں