توتک آپریشن مظالم کی سنگین داستان ہے۔ بی ایس او آزاد

642

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے 2011کو خضدار کے علاقے توتک میں فوجی آپریشن کے دوران تنظیم کے پانچ کارکنوں سمیت ایک درجن سے زائد بزرگوں و نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کو 11 سال مکمل ہونے کے باوجود تاحال عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے ہزاروں سیاسی کارکن کئی سال گزرجانے کے بعد بھی لاپتہ ہیں۔ فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کی مظالم نے ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں کو اجیران بنا کررکھا ہے۔ بلوچستان میں فورسز کے جرائم کا نہ تھمنے والا سلسلہ روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ نوجوانوں و بزرگوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا جو سلسلہ ایک دہائی پہلے شروع ہوا تھا، وہ تاحال نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں روز بہ روز شدت آرہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ 18فروری 2011کے توتک آپریشن کے دوران قلندرانی فیملی کے بزرگوں و نوجوانوں سمیت ایک درجن سے زائد نہتے بلوچوں کو فورسز نے جبری طور لاپتہ کیا تھا، جن میں بی ایس او آزاد کے کارکنان اورنگزیب، آفتاب، وسیم اور عتیق الرحمن قلندرانی سمیت 70سالہ محمد رحیم، فدا احمد، نثار احمد ، ڈاکٹر محمد طاہر ، ندیم بلوچ اور خلیل الرحمن تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کے علاوہ توتک کے رہائشی اسی خاندان سے کئی نوجوان دوسرے شہروں سے بھی اٹھا کر لاپتہ کیے گئے ہیں اور ایک درجن کے قریب نوجوان مختلف کاروائیوں کے دوران شہید کیے گئے ہیں۔2013کو توتک سے ہی اجتماعی قبریں دریافت ہوگئیں تھیں جن میں کم از کم 160لوگوں کی لاشیں موجود تھیں، فورسز نے ان لاشوں کو اپنی تحویل میں لیکر میڈیا اور مقامی لوگوں سے چھپائے رکھا، جس سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ذہنوں میں کئی خدشات جنم لے چکے ہیں۔

بی ایس او آزاد نے لاپتہ کارکنوں سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کی گمشدگی پر عالمی اداروں کی بےحسی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا زمہ دار اداروں کی خاموشی ریاستی فورسز کو یہ اختیار فراہم کررہی ہے کہ وہ بلوچوں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کریں۔ طاقت کے عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں پر استعمال سے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ اور ماروائے عدالت قتل کیے جا چکے ہیں۔ بی ایس او آزاد نے انصاف کے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچ نسل کشی روکنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اپنا فوری کردار کریں۔