تعلیم ، تعلیمی نظام اور بلوچ طلباء
نوروز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دیا نہیں ہے میرے شہر کے کسی گھر میں
یہاں کے بچے بڑے ہوکر رات بنتے ہیں
علم دیئے کی مانند ہے جو ہمارے موجودہ اور آنے والی نسل کو رات ( اندھیرا) ہونے سے بچا تی ہے۔ وہ معاشرہ ہمیشہ پسماندگی کیطرف گامزن ہو تا ہے جہاں شعور اور علم کی کوئی اہمیت نہ ہو اور کسی معاشرے کے پسماندہ ہونے میں یا ترقی کرنے میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ علم کے عمل سے دور ہے تو مطلب نوجوان کتابوں سے دور ہیں۔
تعلیم ہر انسان کا حق ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا اور تعلیم انسان کو شعور دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ خود آگہی حاصل کرتی ہے۔ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو آسودگی کے ساتھ تعلیم فراہم کرے لیکن جب آپ ایک نظر ہمارے معاشرےکی تعلیمی اداروں کو دیکھ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو موجودہ ادارے ہیں وہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس سے یہ ظا ہر ہوتا ہے کہ ہمیں علم اور تعلیم کی ضرورت اور نوجوان کے لئےکتابوں کی اہمیت کا کوئی شعور ہی نہیں کیونکہ جس معاشرے کے لوگوں کے فزیئولوجیکل ضروریات یعنی آرام اور خوارک پورا نہ ہواور پینے کا پانی میسر نہ ہو تو وہاں کےلوگ علم اور تعلیمی ضرورت کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔
نوجوان طلبا کے اپنے گھر یا خاندان میں کچھ ذمہ داریاں ہو تے ہیں ۔ نوجوان اپنے معاشرے کا ایک فرد ہے اور معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ داری سب سے اہم ہے ۔ اگر پڑھنا چاہتے ہیں تو اپنے معاشرے کے لئے پڑھیں، اگر کچھ بننا چاہتےہیں تو اپنے لوگوں کے لئے بنیں۔ معاشرے کے پسماندہ ہونے کی اور بھی کچھ وجوہات ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم نوجوان طلبا اپنے معاشرے کو اندھیرے کی سمندر میں ڈوبنے دیں؟
زندہ قومیں نوجوانوں پر توجہ دیتی ہیں کیونکہ نوجوان طلبا ہی اقوام و ملت کو چلانے کے لئے نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے ترقی کی ایک وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں آپ کو بلوچ طلبا ہمیشہ سڑکوں پہ اپنے تعلیمی حقوق کے لئے بھیک مانگتے ہوئے ملینگی،ہاتھوں میں بینر (پوسٹر) ہوتا ہے جس پہ لکھا ہو گا کہ “علم دو ، تعلیم دو” ۔ ان کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک نسل یاقوم علم کی طلبگار ہے، دوسری طرف ہر سال کچھ نوجوان طلبا اس تعلیمی نظام کے خلاف بھوک ہڑتال پہ بیٹھتے ہوئے ملیں گے جواپنے تعلیمی حقوق کے لئے نعرے لگاتے ہیں لیکن یہاں سننے والا کوئی نہیں ۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں وہ تعلیمی نظام نہیں جو پنجاب یا اسلام آباد کے اداروں میں دی جاتی ہے تو بلوچ طلبا اپنے خواب سے بھرا بستہ لے کر پنجاب یا اسلام آباد کی طرف رخ کر تے ہیں۔ وہ یہی سوچتے ہیں کہ اب ہمیں یہاں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ہم اپنے تعلیم کو سنجیدگی سے جاری کریں گے تاکہ زندگی میں کچھ بن سکیں لیکن وہاں بھی یہ مشکلات ان کا پیچھانہیں چھوڑ تے ہیں۔
بلوچ طلبا کئی سال محنت کر کے ریزریو سیٹ کے ذریعے کسی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان کی تنگدستی کیحالت میں اپنے تعلیمی سفر کو جاری کر سکییں لیکن یہاں بھی کبھی اسکالرشپ کی بندش تو کبھی ریزریو سیٹوں کے مسئلے سے دوچارہوتے ہیں .
جب ایک بلوچ طالب علم مذکورہ مشکلات کا سامنے کر کے تعلیم پورا کرتی ہے تو اس پہ یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ اپنےنوجوانوں کو علم کی اہمیت سے آگاہ کرے تاکہ وہ معاشرے میں اپنے آنے والے نسل کے تعلیمی حقوق کے لئے آواز اٹھاسکیں اورسب سے اہم یہ کہ طلبا معاشرے میں ان افراد کی تربیت پر زور دیں جو اب تک شعور کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ یہ باتسچ ہے کہ خوف کے سائے میں پلنے والے دماغ کا سوچنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی نوجوان نسل یعنی طالب علم کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں