تازہ بلوچ جنگ کی شدت کا علاقائی اور عالمی پہلو ۔ معشوق قمبرانی

1097

تازہ بلوچ جنگ کی شدت کا علاقائی اور عالمی پہلو

تحریر: معشوق قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ کچھ سالوں سے شروع ہونے والی بلوچ جنگ کی “نئی شدت” پر نا صرف خطے کی قومیں بلکہ علاقائی و عالمی قوتیں بھی بہت باریک بینی سے نظر رکھے ہوئی ہیں۔

بلوچستان وہ علاقہ ہے،جس کا نام آنے سے ہی ساری دنیا کے سامنے ایک بہت عرصے سے جنگ زدہ خطے کی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ جس میں کئی سالوں پر محیط جنگ و جدل ، کشت و خون اور ایک مسلسل بلوچ مزاحمت کا باب کھُل جاتا ہے۔

بلوچستان جس کی آزاد وطنی تاریخ صدیوں پر محیط رہی ہے ۔ آزاد بلوچستان ریاست (ریاستِ قلات) پر برطانیہ اور ازاں بعد پاکستان کے حملے اور قبضے کی پوری تاریخ بلوچ مزاحمت سے بھری پڑی ہے۔ بلوچوں نے ہمیشہ آزاد رہنا سیکھا ہے۔ بلوچ تاریخ کے کسی بھی دور میں کسی بیرونی حملہ یا قبضہ آور کی غلامی اور قبضے کو قبول نہیں کیا ہے۔ یہ ہر دور میں اپنے قومی تشخص اور آزاد و خودمختار قومی وجود کے لیئے لڑتے رہے ہیں۔

پاکستان نے بلوچستان پر کئی بار بار بڑے فوجی آپریشن کیئے ہیں، جن میں مجموعی طور پر آج تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شہید ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں جبری لاپتہ کیئے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ جنگ اپنی تاریخ کے مختلف ادوار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی جنگی طاقت میں اور زیادہ شدت لاتی رہی ہے۔

تازہ بلوچ جنگ جس میں بلوچ فدائین کے حملوں کے بعد شدت زور پکڑتی ہوئی نظر آئی ہے، اس کی شروعات اگست 2018میں دالبندین میں اس شروعاتی فدائی حملے سے ہوئی، جس میں بلوچ لبریشن آرمی کے بانی جنرل اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے چائنیز قافلے پر فدائی حملہ کیا۔

بلوچ جنگ کی تاریخ کے رُخ کو موڑنے والی یہ ایسی جنگی پوائنٹ (ٹٙرننگ پوائنٹ) تھی، جس نے کئی دہائیوں سے روایتی انداز میں چلنے والی ساری جنگ و جنگی حکمت عملی کا رخ ہی موڑ دیا۔

یہاں سے بلوچ جنگ ایک نئے فیز میں داخل ہوتی ہے۔ فدائین (خودکش) حملے دشمن کی بیخ کِنی کرنے کے لیئے کسی بھی گوریلا جنگ کے سب سے اعلیٰ اور انتہائی جنگی حربہ ہوتے ہیں۔ اور بلوچ جنگجو جب خودکش بن جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا رہ جاتا ہے؟ یہ جنگ کی سب سے انتہائی اور آخری فیصلہ کُن شکل ہے۔

جدید گوریلا جنگوں میں اس طرح کے فدائین حملے سب سے پہلے لبنان، فلسطین اور تامل ٹائیگرس نے شروع کیئے تھے ۔

اس کے بعد دنیا کی دوسری تنظیموں نے اس اسٹریٹجی کو اپنی گوریلا جنگ کا حصہ بنایا۔ ان میں زیادہ تر وہ تنظیمیں تھیں، جن کا تعلق مذہبی شدت پسند تنظیموں سے رہا ہے۔ لیکن بلوچ موومینٹ اس خطے میں ایک سیکیولر موومینٹ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ اس موومینٹ کے اندر “مجید برگیڈ” جیسی فدائین ونگ کا قیام بلوچ جنگ کے لیئے ایک بہت بڑا چھلانگ ثابت ہوا ہے۔ یعنی یہ اس خطے کی پہلی قومپرست اور سیکیولر موومینٹ ہے، جس میں فدائین حملوں کا تصور اور مقصد کسی بھی جنت ، آخرت، حوروں کی لالچ یا مذہبی مقصد کے لیئے نہیں بلکہ واضح طور پر اپنے بلوچ وطن کی آزادی اور قومی وجود کی بقا کے لیئے ہے۔

کسی بھی گوریلا جنگ میں تیں چیزوں کا ہونا اور ان کا صحیح استعمال کرنا بہت اہم ہوتا ہے؛

1. انقلابی صلاحیت یافتہ لیڈرشپ
2۔ وسائل
(جس میں، انسانی وسائل، معاشی وسائل اور جنگی وسائل سب آجاتے ہیں۔)
اور
3. جنگی حکمت عملی (اسٹریٹجی)

کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیئے یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے لیئے لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ایک چیز کی غیر موجودگی ، غیر متوازنیت یا غلط استعمال ساری جنگ کا پلٹہ پلٹ سکتی ہے۔

بی ایل اے میں جنرل اسلم بلوچ جیسا کمانڈر ، اس کی موجودہ ٹیم اور “براس” کی شکل میں “بلوچ مشترکہ جنگی محاذ” کی لیڈرشپ میں یہ ساری چیزیں بڑی حد تک مکمل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے ایک تسلسل کے ساتھ پاکستان اور چائنہ کے سیپیک پراجیکٹ کی ان اسٹریٹجک پوائنٹس پر حملے کیئے ہیں، جو پوائنٹس پاکستان اور چین کے استحصالی عزائم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی اہم اسٹریٹجک حدف یا پوائنٹس کو چُننا
اور ان پوائنٹس پر اتنی تیاری کے ساتھ کامیاب حملوں کا حدف حاصل کرنا۔

کراچی میں چینی کونسلیٹ، اسٹاک ایسکچینج، گوادر پی سی ہوٹل، گوادر پورٹ اور اب نوشکی اور پنجگور کے فدائین حملے بلوچ جنگ کو ایک نئی شدت کے ساتھ دنیا کے سارے اسٹریٹجک اور ڈپلومیٹک حلقوں کی ڈیسک پر شروع ہونے والے ایک نئے بحث کا حصہ بنا دیا ہے۔

امریکن انٹیلیجنس سمیت دنیا کی ساری انٹیلیجنس اور اسٹریٹجیز کے ماہر بلوچ جنگ کی اس تازہ شدت کے بعد اس پہلو پر بھی ضرور غور کر رہے ہیں کہ “جو پاکستانی فوج بلوچ جنگجووں سے تین چار دنوں تک قبضے میں آئے ہوئے اپنے فوجی ہیڈکوارٹرز نہیں چُھڑا سکتی، وہ ناکارہ فوج پاکستان کے ایٹمی تنصیبات اور ٹھکانوں کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کیسے رکھ سکتی ہے ؟ ”

تازہ بلوچ جنگ کی شدت کے بعد عالمی قوتوں کے سامنے یہ ایک نیا پہلو بھی آیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ٹھکانے کل اگر ایسی ہی گوریلا اسٹریٹجی کے تحت کسی دوسرے انتہاپسند تنظیم کے کنٹرول میں چلے گئے، تو اس صورتحال میں امریکہ ، انڈیا اور پوری مغربی دنیا سمیت عالمی سلامتی کے لیئے منڈلاتے ہوئے خطرے کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ اور دنیا اس خطرے سے کیسے نمٹے گی؟ کیا اس چیلینج کو پاکستان کی اِسی ناکارہ اور بزدل فوج کے آسرے چھوڑ دے گی؟ جو کسی بھی وقت ایک بڑا گلوبل تھریٹ بن سکتا ہے۔

پاکستان اور اس کے ایٹمی تنصیبات کو امریکہ سمیت پوری دنیا پہلے بھی عالمی خطرہ قرار دے چکی ہے اور ان پر کسی بھی بڑے حملے کی صورت میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا وقتاٙٙ فوقتاٙٙ خدشہ ظاہر کرتی رہی ہے۔

جس موضوع پر امریکہ اور بہت سارے ملکوں نے مختلف اسٹریٹجک ریسرچ رپورٹس، ڈاکیومینٹریز اور “جی آئی جو، رٹیلیئیشن” کے نام سے کئی موویز بھی بنائی ہوئی ہیں۔

تازہ بلوچ جنگ نے پاکستان کی نا صرف ایٹمی تنصیبات اور ٹھکانے محفوظ ہونے کی دعویٰ کو رد کردیا ہے بلکہ پاکستانی فوج کے ناکارہ پن ، بزدلی اور آپریشنل صلاحیتوں کی ناکامی کو بھی اب ساری دنیا کے سامنے بے پردہ کرکے رکھ دیا ہے۔

بس یہ چیز کرکے بلوچ جنگجووں نے اپنے اہم اسٹریٹجک ایڈوانٹیج ، حدف اور مقصد کو حاصل کردیا ہے اور اپنی جنگی صلاحیت ساری دنیا کے سامنے ظاہر کردی ہے ۔

اس صورتحال نے خطے میں علاقائی مفادات اور اسٹریٹجک ایڈوانٹیجز کے سرد جنگ میں ایک دوسرے کے سامنے برسرِ پیکار قوتوں کو بھی اس حقیقت سے آشنا کردیا ہے کہ بلوچ اس سرزمین اور خطے کی اٹل حقیقت ہیں۔ اس لیئے بلوچ کو اسٹیک ہولڈر ماننے اور ان کے قومی مفادات کے تحفظ کے بغیر کوئی بھی “ریجنل اسٹریٹجی” ناکام اور غیر موثر ہوگی۔

بلوچ جنگ اگر اسی ہی شدت اور طاقت سے چلتی رہی اور بلوچ جنگجو تنظیموں کو وسائل کی کمی کا سامنا نا کرنا پڑا ، تو پاکستان جیسی ناکارہ فوج کو شکست دینے کے لیئے آنے والے کچھ ہی سال کی “اسٹریٹجک فریکوئنسی” بلوچ جنگ کے لیئے بہت فیصلہ کُن اور گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔

آخری بات ؛
دُنیا کی تاریخ بڑے بڑے اِمپائیرز (سلطنتوں) کے ٹوٹ کر بکھر جانے کی تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ ان تاریخی امپائیرز کے مقابلے میں کل جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے انگریزوں کی بنی ہوئی اس مصنوعی ریاست پاکستان کی حیثیت تو کچھ بھی نہیں ہے۔

دُنیا میں بڑی بڑی توسیع پسند جغرافیائی ریاستوں اور کثیر القومی ریاستوں کو سنبھال پانے کا وقت گیا۔ بقول ایلون ٹافلر مُستقبل اب “سِمارٹ اور جِیانٹ” ریاستوں کا ہے۔ جس میں یورپی یونین طرز دنیا کی ساری قومیں اپنے آزاد اور خودمختیار حیثیت کے ساتھ یونین بناکر رہ سکتی ہیں۔

خاص کرکے پاکستان جیسے پنجابی اسٹیبلشمینٹ اور معاشی طور پر تباہ و برباد ریاست کے لیئے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ مستقبل کی جغرافیائی تبدیلیوں سے بچ سکے۔

یوگوسلاویہ،صومالیہ، سوڈان اور سیریا جیسے تباہ حال ممالک اس کا مثال ہیں۔ آگے چل کر دنیا میں پاکستان جیسے ملکوں کا حال بھی یہ ہونا ہے جنہوں نے خود کے بنیادی اندرونی مسائل کو تو سنبھالا نہیں۔ اُلٹا دوسری قوموں کی زمینوں کو ہتھیانے کی حوس میں دوڑ لگادی اور آخر میں ٹکڑےٹکڑے ہونا ان کا مقدر بنا۔

پاکستان اپنے معاشی دیوالہ پن اور اندرونی جنگی چئلینجز کے شدید زٙد میں ہے اور یہ ہی چیز پاکستان کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔

زمینی حقائق یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ دیر یا سویر پاکستان کو آخرکار بلوچستان سے شکست فاش کھاکر نکلنا ہی پڑے گا، اس میں جتنی دیر کریگا، اتنا زیادہ نقصان اٹھائے گا ، کیونکہ تازہ خودکش حملوں کے بعد صاف نظر آرہا ہے کہ بلوچستان پاکستانی فوج کے لیئے “اسٹالن گراڈ” ثابت ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں