بی ایس او کے سابقہ سینٹرل کمیٹی ممبر ثناء آجو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں بی ایس او میں سوالات اٹھانے اور بعدازاں تنظیم سے استعفیٰ دینے کی پاداش میں بی ایس او (چنگیز) کے مرکزی عہدیداران کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہے جس کے باعث عدم تحفظ کا شکار ہوں۔
ثناء آجو کا کہنا ہے کہ تنظیم کے اندر مجھ پر تخریب کاری کے مسلسل نازیبا الزامات لگائے جس پر میں نے مرکزی کابینہ سے سوالات کیے لیکن مجھے جواب نہیں مل سکا جبکہ میرے بار بار اسرار پر بھی ان معاملات کے متعلق کونسلران کی میٹنگ بلائی نہیں گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ بعدازاں جواب نہ ملنے پر میں نے مرکزی کمیٹی اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیا جس میں ان تمام معاملات کا میں نے اظہار کیا اور یہ استعفیٰ تمام ارکان کے سامنے پیش کیا جس پر مجھے دھمکایا گیا کہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں، اس دوران مسلسل مجھے خاموش رہنے کیلئے دباو ڈالا گیا لیکن میں نے بی ایس او کے دفاع میں اپنی باتیں تنظیم کے اندر ہی کرتا رہا، اور بارہا میں نے اس امر کا اظہار کیا کہ کونسلران کو بلاکر ان مسائل پر بات کی جائے۔
ثناء آجو نے کہا کہ سینئر دوستوں اور ممبران کے استعفیٰ دینے پر ان کے گھر تک پہنچے اور بعدازاں ان کے استعفیٰ دینے کا الزام مجھ پر لگایا گیا کہ میں دیگر تنظیموں کیلئے کام کررہا ہوں۔ میں ان تمام معاملات پر بیٹھنے پر اسرار کرتا رہا ہوں کہ اگر میں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے تو مجھے اسی کے تحت سزا دی جائے اور میں قوم کے سامنے معافی مانگنے کیلئے تیار ہوں لیکن ان الزامات میں سے کوئی بھی آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا۔
ثناء آجو نے کہا کہ اس دوران مجھے مختلف القابات دیئے گئے اور الزامات لگائے جاتے رہیں، ان معاملات پر بات کرنے پر اب مجھے بی ایس او (چنگیز) کے جونیئر جوائنٹ سیکرٹری کی جانب سے جانی نقصان دینے کی دھمکیاں مل رہی ہے۔ میں بلوچ طلباء تنظیموں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ چنگیز بلوچ سے اس حوالے سے جواب طلب کرے جبکہ میں واضح کرتا ہوں کہ اگر مجھے کسی بھی قسم کا جانی نقصان پہنچا تو مذکورہ افراد اس کے ذمہ دار ہونگے۔
ثناء آجو نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر میں جونیئر جوائنٹ سیکرٹری کے دھمکی آمیز وائس نوٹ دوستوں کے ساتھ شئر اور پلبک کرونگا تاکہ قوم کے سامنے واضح ہو کہ چند عناصر کس طرح قوم کے نام پر اپنی ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر طلباء سیاست کو پراگندہ کررہے ہیں۔