بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں تیزی، چینی منصوبوں کے مستقبل پر سوالات

1451

جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق پاکستانی صوبے بلوچستان میں حالیہ چند ہفتوں میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے پاکستانی فوج پر مسلح حملوں میں تیزی آئی ہے، جس سے چینی حمایت یافتہ بڑے بڑے منصوبوں کے بارے میں سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کے مطابق سن 2015 میں چین نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر نیٹ ورک کے ذریعے گوادر کو چینی خطے سنکیانگ سے ملانے کے لیے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ بلوچستان میں تعمیر ہو رہا ہے، تاہم بلوچ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہے۔

سی پیک کے تحت پاکستان میں سڑکوں، ریل اور پائپ لائنز کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے چین مشرق وسطیٰ تک آسان سے رسائی کا خواہاں ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین پاکستان سمیت جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے تاکہ امریکی اور بھارتی اثر و رسوخ میں کمی آئے۔

تاہم بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے صوبے بھر میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کیے جا رہے ہیں، جن سے ان ترقیاتی منصوبوں کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق رواں ماہ بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کہلانے والی ایک ممنوعہ عسکری تنظیم نے پنجگور اور نوشکی اضلاع میں کئی حملے کیے۔ ان حملوں میں نو پاکساتنی فوجی اور 20 علیحدگی پسند مارے گئے۔ پاکستانی فوج کے مطابق حالیہ برسوں میں بلوچ علیحدگی پسندوں کا یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب وزیر اعظم عمران خان چین کے دورے پر تھے۔ عمران خان نے اس حملے پر اپنے ردعمل میں فوج کے ‘بہادر جوانوں‘ کو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے پر شاباش دی اور ان کی ‘قربانیوں‘ کو سراہا۔

جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان اپنے روایتی حریف ملک بھارت پر بلوچ علیحدگی پسندی میں معاونت کا الزام عائد کرتا ہے، جسے نئی دہلی حکومت مسترد کرتی ہے۔

ڈوئچے ویلے میں شائع کیے گئے رپورٹ کے مطابق بی ایل اے بلوچستان کا سب سے بڑا علیحدگی پسند گروہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے فعال ہے۔ سی پیک پروجیکٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی بی ایل اے اور دیگر بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔

اگست 2018 میں بلوچستان کے علاقے دالبندین میں ایک خودکش بمبار نے چینی انجینیئرز کی ایک بس کو نشانہ بنایا تھا، جس میں تین چینی شہریوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔

نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی ایک بلوچ علیحدگی پسند گروپ نے قبول کی تھی۔

مئی 2019 میں علیحدگی پسندوں نے گوادر کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بھی علیحدگی پسندوں کی جانب سے وقفے وقفے سے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے جنوبی ایشیائی امور سے متعلق ڈائریکٹر اور سابق پاکستانی سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچ قوم پرست پاکستانی ریاست کو قابض سمجھتے ہیں اور ان کا ہدف بھی ریاست ہی ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ کے نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ علیحدگی پسند پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ”ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکومت اور چین ان کے ہاں استحصال اور غربت کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

پاکستان میں سلامتی کی مستحکم صورت حال چینی سرمایہ کے لیے ضروری ہے تاہم عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ان منصوبوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ حسین حقانی کے مطابق، ”کوئی سرمایہ کار بہ شمول چین کسی پرتشدد فضا اور طویل المدتی بنیادوں پر عسکریت پسندی کے ماحول میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔