بلوچستان میں مارو اور پھینکو والی پالیسی میں مزید شدت لائی جا رہی ہے۔‏ ‎بی ایس او آزاد

406

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے پنجگور، نوشکی اور بالگتر میں عام عوام کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں مارو اور پھینکو والی پالیسی واپس تیز کر دی گئی ہے اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عالمی اداروں کی خاموشی اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔

‏‎ترجمان نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے سبی ، پنجگور، بالگتر اور نوشکی سے عام شہریوں کو لاپتہ کرکے انہیں گولیوں سے چلنی کر دیا گیا ہے۔ عام شہریوں کو نشانہ بنانا ظلم اور جبر کی انتہا ہے۔ قابض کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ بناکر خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ بے گناہ افراد کو نشانہ بنانے سے ریاست اپنے مذموم عزائم میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حالیہ دنوں کوئٹہ، نوشکی، پنجگور اور کیچ کے مختلف علاقوں سے درجنوں افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں جبکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے ان مظالم پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ اور صحافیوں پر ریاستی دباؤ کے پیش نظر تمام جرائم چھپائے جا رہے ہیں اور عالمی سیاسی طاقتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔

‏‎ترجمان نے کہا کہ پاکستان عرصہ دراز سے بلوچستان میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس دن پاکستانی فورسز بلوچستان میں قتل و غارت گری نہیں کرتے مگر ان تمام مظالم پرعالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کو مکمل طور پر چھوٹ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ریاستی اداروں نے بلوچستان میں نسل کشی کا بازار گرم رکھا ہوا ہے۔ ریاستی مظالم میں پاکستان کے تمام ادارے اپنی مجرمانہ خاموشی کے باعث شریک نظر آتے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور سیاسی طاقتوں کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔