بلوچستان برائے فروخت نہیں
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوست
دو فروری کو نوشکی اور پنجگور کا حملہ پاکستانی تاریخ میں ایک سیاہ دن اور بلوچ تاریخ میں مزاحمت کے طور پر تاریخ کے صفحات کی زینت بنے گا۔ بلوچ کی تاریخ قربانیوں اور مزاحمت کا امتزاج ہے جبکہ 75 سالہ تاریخ رکھنے والی مصنوعی ملک پاکستان کی تاریخ سرینڈر اور دلالی کی تاریخ ہے۔
نوشکی اور پنجگور واقعہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس حملے نے پاکستان کے عسکری اور پارلیمانی حلقوں میں تشویش کی فضاء کو جنم دینے کے علاوہ عسکری سپاہیوں کے دلوں میں موت کا خوف بٹھا دیا ہے۔ اس لئے آمدہ اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں سے فوجی چوکیوں کو خالی کروایا گیا ہے اور کئی فوجی چوکیوں کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ ایسی بھی اطلاع ہے کہ فوجیوں کی خودکشی کے واقعات بھی رونماء ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں حالیہ بلوچ مزاحمت کاروں کے حملے پاکستان اور اسکے عسکری اداروں کےعلاوہ چائنا اور بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے والے کمپنیوں کے لیے ایک وارننگ ہے کہ بلوچستان برائے فروخت نہیں بلکہ اس کے فرزند پاکستانی بروکروں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں اور کسی بھی قیمت پر بلوچستان کو فروخت کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
بلوچستان پاکستان کے مقتدرہ حلقوں، پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں کے تجزیے کا موضوع صرف اس وقت بنتا ہے جب بلوچستان کے وسائل کی سودے بازی میں مصروف عمل ہو لیکن نوشکی اور پنجگور واقعے نے چند پاکستانی صحافیوں کو اس بات کو کہنے پر بھی مجبور کردیا ہے کہ بلوچستان میں انڈیا کی مداخلت کے بجائے بلوچ مزاحمت کاروں کے مضبوط کیمپس کی موجودگی ہے۔
پاکستانی فوج کے بلوچستان میں خوفزدگی اور تشویش کا یہ عالم ہے کہ ان کا مورال بلند کرنے کے لئے ان کی تنخواؤں میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فوجی اہلکار بلوچستان میں ڈیوٹی دینے سے انکاری ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے سپاہی موت کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے اور کسی بھی مقام اور وقت ان پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ دونوں حملے دنیا سمیت پاکستان بھر میں فوج کی بدنامی کا باعث بنیں ہیں کیونکہ یہ حملے ان کے فوجی ہیڈ کوارٹرز میں ہوئے ہیں۔ ایک تو انہیں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا رہا اور دوسرا جس عوام کے سامنے یہ جھوٹ بولتے تھے کہ بلوچستان میں امن ہے وہاں میڈیا کو تباہی کی کوریج کی اجازت نہ دیکر اپنے جھوٹ پر مزید پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان نے 195 ہلاکتوں جبکہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے صرف 8 فوجیوں کے ہلاکت کی تصدیق کی ہے لیکن آرمی چیف پاکستان اور وزیر اعظم کے دورہ نوشکی سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ شدید تھا اور نقصان ان کے توقعات سے بھی زیادہ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور بلوچ مزاحمت کاروں کی بہادری اور جذبہ آپکے جھوٹ کو آشکار کرنے کے لئے کافی ہے۔
ان حملوں کے بعد فوج کا ردعمل اور عام عوام کی جبری گمشدگی ان کے درد اور تکلیف کا مداوا بیان کررہی ہے کہ چوٹ کہاں اور کیسے لگی ہے۔
بلوچ عوام جو بلوچستان کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے ان کو چاہیے کہ آزادی پسندوں کی حمایت جاری رکھیں، کسی بھی میدان میں آزادی کی جدوجہد میں حصہ ڈالیں اور دنیا کو پیغام دیں کہ بلوچوں کی جدوجہد آزادی کے لئے ہے اور بلوچستان کے وارث بلوچ ہے بلوچستان برائے فروخت مال نہیں کہ ہر کوئی آئے اور قیمت لگا کر بلوچستان کا استحصال کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں