بابائے قوم کامریڈ خیر بخش مری ۔ داؤد بلوچ

886

بابائے قوم کامریڈ خیر بخش مری

تحریر: داؤد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بابا زندہ ہے کیونکہ بابا ایک فکر، ایک فلسفہ کا نام ہے، بابا بلوچ قوم اور دنیا کے مظلوم اور محکوم قوموں کا لیڈر ہے، بابا غلام قوموں کی آزادی کا نشان ہے، بابا جیسے انقلابی لیڈر دنیا میں بہت کم پیدا ہونگے، بابا نے اپنی زندگی میں سکون نہیں دیکھا، ہر وقت مشکل گھڑی میں گزرے ، آپ نے پوری زندگی بلوچ قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کیا، بابا نے جلاوطنی، جیل قید ، اور پیرسن زندگی میں مزاحمت کو نہیں چھوڑا۔

بابا 29 فروری 1928 کو سردار مہراللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ، بابا جب چھوٹا تھا تو یتیم ہوگئے، سردار دودا خان نے ان کی پرورش کی۔ بابا کہتے تھے پنجابیوں کے ساتھ کسی بھی صورت نہیں رہنا چاہتے ہیں ، بابا نے کسی انٹرویو میں صحافی کو کہا کہ میں اپنے آپ کو پاکستانی کہنا گالی سمجھتا ہوں۔ آپ نے اسٹیڈی سرکلز چلائے اور بلوچ مزاحمت کاروں کی گوریلا تربیت کی ۔ بابا اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کو قرار دیا تھا۔ ایک انٹرویو میں وسیم بلوچ نے بابا سے سوال کیا اگر بالاچ زندہ رہتا تو کیا چیز مختلف ہوتی؟ کامریڈ نے جواب دیا اگر زندہ رہتا تو تکلیف میں رہتا بھوکا رہتا کام کرتا رہتا بالاچ کا مزید رہنا شاھد اچھا ہوتا۔ ایک بالاچ نہیں ہزاروں کی تعداد میں باپوں کے بیٹے اور بیٹوں کے باپ مارے گئے ۔میری ان اولادوں کا دکھ اگر ایک منٹ مجھے ستائے گا تو یہ شاید پانچ منٹ ستائے گا دونوں کا دکھ برابر کہوں تو شاید جھوٹ ہوگا لیکن یہ میرے شعور کی کمی ہے جذباتیت نہیں ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے اگر میرا بیٹا چھت ہے تو دیواریں دوسری بلوچ ہیں۔

بالاچ کا مرنا دکھ کی بات ہے لیکن ضرورت تھی قوم کو اس کے کام آگیا۔ بالاچ کی فکر پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے، بابا کا کہنا ہے کہ بالاچ میرا بیٹا نہیں دوست تھا قریبی ساتھی ہمسفر اور کامریڈ تھا۔

مجھے زندگی میں بابا سے ملنے کا بہت شوق تھا مگر میں اس وقت بہت چھوٹا تھا بابا سے مل نہیں سکا، بابا 2014. 10 جون کو ہم سے رخصت ہوگئے اور اپنے محبوب ماں بلوچستان کی مٹی میں قربان ہو گئے مگر بابا نے ہمارے لیے جو فکر چھوڑا ہے وہ ہمیشہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ رہے گا اور یہ پوری بلوچ قوم میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہے گا۔ بلوچ قوم نے بابا کی میت کو آزاد بلوچستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر بلوچ شہداء کے قبرستان نیوکاہان (شال) میں سپرد خاک کردیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں