ایمان، زمین اور مجید بریگیڈ کے عظیم فدائین ۔یاسین بلوچ

746

ایمان، زمین اور مجید بریگیڈ کے عظیم فدائین

تحریر: یاسین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریاست پاکستان اپنی مکاری اور سازشوں سے چاہے جتنی بھی اپنی بزدلی اور ڈرپوکی چھپانے کی کوشش کرے کہ یہ عظیم مجاہد (مجید بریگیڈ کے عظیم فدائین) بیرونی طاقتوں کی وجہ سے جدید اسلحے سے لیس تھے، انکو غیروں سے اندورنی اور بیرونی مدد حاصل تھی، انکو انڈیا اور دوسرے ملکوں کی جنگی تربیت اور کمک حاصل تھی، پتہ نہیں انکو کن کن تنظیموں سے طرح طرح کی تربیت ملی ہے۔ پاکستان یا پنجابی اسٹیبلشمنٹ انکا جو جی چاہے کہیں، سمجھیں اور بلوچ جہد کاروں کے بارے میں دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے جو بھی پروپیگنڈہ کرنا ہے کریں لیکن اصل حقیقت جو اب پوری قوم اور ایک حد تک بیرونی قوتوں کو بھی شاید پتہ لگ گیا ہے۔ جسکی وجہ سے آج پاکستانی فوج خوف کی وجہ سے لرز اٹھا ہے، اسکی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور وہ اب اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ وہ واقعی بلوچ سرڈگار پر بزور شمشیر اور زبردستی قابض ہیں، جو اب ان کے لیے موت کا سامان ہوگا۔ اب انکی آنکھوں میں اس سرزمین کو اپنا سمجھنے کا کوئی جواز نہیں اور وہ اب نفسیاتی طور پر بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ بلوچ زمین پر اجنبی ہیں۔ اصل میں اس کا اصل سرچشمہ بلوچ جہد کاروں اور مجید بریگیڈ کے عظیم فدائین کا ایمان ہے جسکی بنیاد مہر زمین ہے اور میرا ایمان ہے کہ اب اس ایمان (ایمان زمین) کے سامنے ریاست پاکستان تو پاکستان کوئی اور قوت بھی بلوچ قوم کو بلوچ قوم کی قومی آزادی کی منزل پر پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔

جدید جنگی تربیت اور جدید جنگی آلات اور اسلحہ سب ایک طرف اور بلوچ جنگجووں و فدائین کا جذبہ ایمان ایک طرف۔ تاریخ گواہ ہے کہ جذبہ ایمان کے سامنے جدید ترین اسلحہ، ٹکنالوجی اور سہولیات سب کے سب ڈھیر ہو جاتے ہیں اور تاریخ اس بات کی گواہی بھی دے گی کہ بہت کم وسائل اور بہت ہی کم فوجی تعداد سے سچے جذبہِ ایمان سے زندہ قوموں نے طاقتور سے طاقتور بادشاہت اور سلطنتوں کو بھی گرایا ہے۔ میں اس کا بھی انکاری نہیں ہوں کہ جدید اسلحوں اور جنگی تربیت کی ضرورت نہیں لیکن ان سے زیادہ قوت اور شدت جذبہ ایمان میں ہے۔ تاریخ کے صفحوں کو اگر کوئی جھنجوڑ کر دیکھ لے تو وہ بخوبی واقف ہوگا کہ فتح اور کامرانی ہمیشہ سچے اور عظیم جذبہ ایمان کی ہوئی ہے اور آج بلوچ قوم کو وہ ایمان (ایمان زمین، مہر زمین) مل گیا ہے جس کے تحت وہ شعوری طور پر عظیم سے عظیم انقلاب برپا کرکے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو اور منظم کرکے اپنی سرڈگار اور قوم کو جلد ظالموں، جابروں اور وحشیوں سے نجات دلائیں گے۔

جواہر لال نہرو ہندوستان کی آزادی کی خاطر جب انگریز سامراج کے خلاف جد و جہد میں جیل جاتے ہیں، 1931 میں جیل سے اپنے 13 سالہ بچی اندرا کے نام خط لکھتے ہیں تو ایک خط میں وہ اپنے بیٹی کو لکھتے ہیں کہ “تاریخ پڑھنا اچھا تو ہے لیکن میرے نزدیک تاریخ بنانے میں حصہ لینا اس سے کہیں زیادہ اچھا ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ آج کل ہندوستان کی تاریخ بن رہی ہے۔”

آج اگر ہم اپنے ملک بلوچستان کو دیکھیں تو آج ہمارے ملک کی حقیقی اور زندہ تاریخ بن رہی ہے۔ اب یہ قسمت، نیت اور سوچ و شعور کی بات ہوگی کہ کون اس تاریخ کو بنانے میں سرخرو اور کون تاریخ کے اوراق میں بدنام ہوگا۔

اسی لئے آج پوری بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں کو اس چیز کا ادراک ہو کہ تاریخ میں اپنا قومی نام و نشان، اپنی شائستہ تہذیب اور ثقافت کو کس طرح زندہ اور اپنی پراہ و شاگان سرڈگار اور زبان کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے۔

2 فروری کی رات مجید بریگیڈ کے عظیم فدائین نے عظیم تاریخ رقم کردی۔ ایک ایسی تاریخ جس سے دشمن اور سامراجی قوتوں کی ایوانیں لرز اٹھی ہیں۔ ہم نے تو ہر وقت سنا اور دیکھا تھا کہ پروانے شمع اور روشنی کے مینار میں آکر خود کو فنا کردیتے ہیں لیکن یہ کیسے پروانے، دیوانے اور عاشق تھے جو دل اور روح میں خود روشن اور ان کے وجود کے ہر ذرے میں تاریکی کا کہیں نام و نشان نہیں پھر بھی روشنی بن کر شب تاریکی میں دشمن پر غضب بن کر ایک ایسا وار کرتے ہیں کہ جس سے تاریخ ہی بدل جاتی ہے کہ روشنیاں ہی ان پروانوں کی طرف مائل ہوکر خود کو ان پروانوں میں پیوست کر کے فنا ہونے پر تیار ہوجاتے ہیں اور یہ پروانے اپنی روشنی، خوشبو اور مہر زمین فضاؤں میں اڑتے ہوئے ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔

اس حملے کے بعد ایک حد تک نیشنل اور انٹرنیشنل سکالرز بلوچ جنگ آزادی اور حقیقی بلوچ مسئلے کو سمجھنے میں متوجہ ہوگئے ہیں جو ان عظیم بلوچ فدائین کی قربانی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ آج انکی قربانی کی بدولت دنیا کے سیاسی حالات پہ تجزیہ کرنے والے تجزیہ نگار اور سکالرز مجبور ہیں کہ وہ بلوچ مسلئے کا اسل سبب جان سکیں۔ جو ایک حد تک بلوچ قومی تحریک آزادی کی کامیابی ہے اور دوسری طرف بزدل دشمن اس قدر بزدل ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو چھپا رہا ہے جب کہ بلوچ قوم اپنا سر شان و فخر سے بلند کرکے اپنے عظیم فدائین کے عظیم کارناموں کو دل و روح اور جان و دماغ سے اپنے وجود کے سُروں سے گن گا رہا ہے جو نفسیاتی طور پر بلوچ کی جیت اور دشمن کی شکست ہے۔

یقین مانیں اگر یہ جذبہ پوری قوم میں بیدار ہوجائے تو بہت جلد یہ جابر، ظالم اور تہذیب و روایات سے ناواقف دشمن بھاگ جائے گا۔ وہ ایک پل بھی بلوچ سرڈگار پر رہ نہیں سکے گا۔ عظیم فدائین کے اس عظیم قربانی نے قوم کے دلوں میں نئی امیدیں، نئے ولولے اور جذبے سے پھر ہمت اور طاقت جگا دی ہیں اور دشمن و اس کے کاسہ لیسوں کے دلوں میں خوف و بزدلی کے جڑوں کو اور مضبوطی سے تناو دیا ہے جو ہر ساعت ان پر عذابِ الٰہی بن کر سامنے آئے گی۔ اس لیے بلوچ قوم خاص کر بلوچ ورناوں کو اس پیچیدہ جنگ کو مزید منظم کرنے کے لیے خود کو اور زیادہ منظم کرنا ہوگا، بے وجہ بغیر نتائج والے بحث و مباحثے سے گریز کرنا ہوگا۔ خود کو دشمن کے نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور عوام کے سامنے خود کو مکمل کیمو فلاج میں رکھنا ہوگا کیونکہ اب یہ جنگ اور شدت کے ساتھ ابھرے گی، اور جنگ جتنی شدت کے ساتھ ابھرے گی دشمن اتنی ہی اپنی حیوانیت دکھائے گی۔

جو اس حملے کے بعد آپ سب دوستوں کے سامنے آیا ہے کہ دشمن اس قدر حواس باختہ ہوجاتا ہیں کہ وہ پنجگور اور نوشکی میں قبضہ کیے ہوئے ایف سی ہیڈکوارٹرز جو مجید برگییڈ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ان جانبازوں سے لڑنے کے بجائے آکر عوام کو قتل کرنا شروع کردیتا ہیں۔ ہمیں شعور اور فکر سے لبریز ہوکر ہر قربانی کے لئے تیار رہنا ہوگا تاکہ ہماری قربانیوں سے بلوچ قوم میں قومی بیداری تیزی سے بڑھتی رہے اور یہی قومی بیداری دشمن کے لیے شکست کا سامان ہوگا۔ جیسا کہ بقول جنرل اسلم کہ “آج اگر ہم خود کو اور اپنے بچوں کو قربان کرنے سے کترائیں گے تو کل ہم کس منہ سے بلوچ ماؤں سے انکے لخت جگروں کی قربانی مانگیں گے؟ آزادی صرف انکا حق ہے جو کسی غیبی طاقت یا کرائے کے قاتل کا انتظار کیے بغیر اپنی جنگ خود لڑتے ہیں۔ اپنی قربانی خود دھان کرتے ہیں۔ آج ایک ریحانو جائے گا تو کل سو بہادر بلوچ بچے اور پیدا ہونگے۔

مقصد صرف ایک خودکش دھماکہ نہیں ہے بلکہ یہ راستہ دکھانا ہے کہ اس سے آگے یہ لڑائی کیسے لڑنی ہے اور ایک ریحان کے جانے کے بعد میں لاوارث نہیں ہونگا۔ میرا وارث میری قوم رہیگی۔” واقعی جنرل اسلم آج پوری قوم تمہارے وارث اور بلوچ قومی آزادی کی خاطر ہزاروں فدائین وطن کی آزادی کی خاطر فدا ہونے کو تیار ہیں۔
ایک اور بات کی وضاحت میں کرتا چلوں کہ ایسا نہیں کہ بلوچ جہد کاروں یا بلوچ فدائین کو زندگی سے پیار نہیں یا وہ زندگی سے بیزار ہیں ۔ وہ سب زندگی کی قدر کرتے ہیں، اسکی روشن اور خوبصورت پہلوؤں میں رہ کر خوبصورت لمحوں کو خوبصورت بنانے کا فن بھی ان کو معلوم ہے، علم کائنات، آگہی تاریخ، راز کائنات پہ تجسس و سوالات تو ہر وقت ان کے ذہنوں میں بھی ابھرتے ہیں، عشق، محبت اور رومانس کی کیفیت اور معیار ان سے سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے، علم مذاہب، فلسفہ اور سائنس تو ان کے رگوں میں شامل، غرض یہ کہ انکو زندگی اور کائنات کے رنگینیوں سے بہت پیار ہے، لہٰذا اسی پیار و محبت نے انکو سکھایا ہے کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی زندگی، زندگی میں شمار نہیں ہوتی، یہ غلامی کی زنجیروں میں زندگی موت سے کہیں زیادہ بدتر اور بدصورت ہوتی ہے، یہی مہر ومحبت، شعور اور آگاہی ان کو انتخاب مرگ پہ لے آتی ہے اور وہ اسے مرگ نہیں زندگی سمجھتے ہیں۔ اگر ایک انسانی زندگی کو بزور طاقت اور زبردستی بے معنی، بے مقصد اور اسکی اصل شناخت کو مسخ کرکے کیڑے مکوڑے سے بھی کم درجے پہ رکھا جائے تو اس حالت اور کیفیت میں انتخاب مرگ ہی حقیقی زندگی بن جاتی ہے۔ ایک فرد کے طور پر اگر میرے وجود کی قربانی میری پوری قوم کی آزادی، میرے قوم کے لئے ظالموں اور وحشیوں سے نجات کا راستہ بنے تو یہ سودا مہنگا نہیں کیونکہ بحثیت فرد میرے وجود کا بے مقصد اور بے کار ہونا اور موجود ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب تک وہ ایک بامقصد اور عظیم مقصد میں بدل کر قربان نہ ہو جائے۔

میں ایک وجود بنکر اس دنیا میں آیا ہوں تو ایک وجود بنکر فنا ہو جاؤں گا یہ حقیقی اور اٹل قانون فطرت ہے۔ پھر کیوں نہ میں اس خوف کو اپنے دل سے نکال دوں کہ میں مر نہ جاؤں۔۔۔۔ مرنا اٹل ہے بس اس مرگ کو عظیم بنانا ہے تاکہ اس مرگ سے پوری قوم کو غلامی سے نجات اور اسے اصل زندگی مل جائے۔ اس سے بڑھ کر زندگی اور کیا ہوسکتی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں