بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں نے پیر کے روز کوئٹہ شہر کے علاقے توغی روڈ پر خواتین کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے ہمراہ لے گئے۔ پولیس اہلکاروں کی خواتین پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل کوئٹہ پولیس سید فدا حسین نے میڈیا کو بتایا کے واقعہ میں ملوث سب انسپکٹر عبدل نوید اور اہلکار غلام رضا کو معطل کردیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار تین خواتین کو گرفتار کرکے زبردستی پولیس گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ اس دوران ایک خاتون بھی مزاحمت کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔ پولیس اہلکار مذکورہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بناتے گاڑی میں دھکیل دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے قوانین کے تحت کسی بھی خاتون کو لیڈی پولیس کانسٹیبل کی موجودگی کے بنا نہ صرف گرفتار نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کی جامعہ تلاشی بھی مرد پولیس اہلکار نہیں لے سکتے۔
ویڈیو کی سوشل پر شئر ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں نے اس ویڈیو کو شئر کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ حکام سے سختی سے نوٹس لینے کی اپیل کی گئی-
اگر یہ خواتین کسی جرم میں مطلوب بھی تھے تو خواتین کانسٹبلز کی مدد کیوں نہیں لیا گیا؟اگر سب اپنی عدالتیں خود سڑکوں پر لگائے گے تو عدالتوں کو تالے لگا جانی چاہئے۔@AQuddusBizenjo سے اس معاملہ کا فی الفور نوٹس لینے اور ان سب پولیس اہلکاروں کے خلاف انتظامی کاروائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔ pic.twitter.com/WSKGVoBdDc
— Jalila Haider جرقہ در ظلمت، انفجار در سکوت (@Advjalila) January 17, 2022
سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے چیف آف پولیس کو نوٹس لینے کا حکم نامہ جاری کیا تھا-
کوئٹہ پولیس کے ایس ایس پی عبدالحق عمرانی کے مطابق 20 روز قبل زینب نامی لڑکی کے والد نے ان کے اغوا کی ایف آئی آر قائدآباد پولیس میں درج کرائی تھی۔
میڈیا کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ والدین کی نشاندہی پر ہی پولیس نے لڑکیوں کو پولیس وین میں بٹھایا جن میں زینب اور ان کی دو سہیلیاں شامل تھیں۔ ایس ایس پی پولیس کے مطابق زنیب نامی لڑکی اپنی رضامندی سے سہیلیوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔
پولیس نے اس معاملے میں اہلکاروں کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایڈیشنل ایس ایچ او کو لیڈی پولیس کے ہمراہ لڑکیوں کی حراست میں لینا چاہیے تھا۔