وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4552 دن مکمل ہوگئے۔ سکھر سے پی پی سکھر سے سی پی پی کے ممبران علیم وہیر، نعیم مہر اور جمیل احمد مہر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہوکر کہا کہ دنیا شاید اپنے مکارانہ اور منافقانہ سیاسی چالبازیوں سے آج اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں سے اس کو انسان تو نظر آتے ہیں مگر انسانی حقوق نہیں، غریب نظر آتے ہیں غربت نہیں، دہشت گردی تو نظر آتی ہے مگر ناانصافی کی بنیادوں پر قائم نظام نہیں مگر ان کے مفادات کی پیروی کرنے والے انہی کی امداد اور انہی کی اسلحہ سے جاری جنگوں میں نہتے بلوچوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور اس پر غضب یہ کہ انسانی حقوق کے علمبردار بھی وہی سامراجی قوتیں بھی وہی اور ان کے عظیم الشان دفاتر بھی وہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ بھی وہی جنیوا کنونشن بھی وہی سلامتی کونسل بھی وہی مگر نا انصافی ظلم جبر وتشدد استحصال وسائل اور ساحلوں کی لوٹ کھسوٹ اور قبضہ گیری جہاد دہشت گردی جنگوں کی میدان اور آماج گائیں اور کمین گائیں ان سے ہزاروں میل دور تیسری دنیاؤں کے وہ مظلوم اور غلاموں کی سرزمین ہیں جہاں دو وقت کی روٹی اور پینے کی صاف پانی کے لیے زندگی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کو پرامن جدوجہد کے مسیحی اور نجات دہندہ کے طور پر گلے لگا رہی ہے پھر وہی جنگ زدہ مظلوم و محکوم اور غلام سمندر کی طرح امن کے ساحل پر پیاسی موجوں کی طرح سر ٹکرا ٹکرا کر انہی سردار اور سامراجی نیوکالونیل ازم کے علمبرداروں کو آوازیں اور صدائیں دے رہی ہیں کہ ہمیں انصاف کی اور انسانی حقوق کی چند گھونٹ پانی پلا دیجئے ہم جانتے ہیں کہ عالمی مفادات کے گرد طواف کرنے والی اس دنیا میں پرامن جدوجہد کے ذریعے بلوچ لاپتہ فرزندوں کی بازیابی کے مطالبہ سے بڑھ کر معصومانہ مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا اور وہ بھی کسی مطالبے کی بنیاد پر ہمیں اپنا یہ رویہ بدلنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ یہ بن بیاہی ماں ہمارے ہی ٹکڑوں پر پلنے والی وہ گھریلو ملازمہ ہے جو سامراجی خانسامان کے ناجائز بچے کی ماں ہے اس لئے پاک دامن کے اس لئے دنیا کو بتا دینے کا مقصد خود سرمایہ دار اور سامراجی قوتوں کے چہرے سے شرافت کا نقاب ہٹانے کا مترادف ہوگا اس لئے بلوچ پرامن جدوجہد کے سوال پر عالمی برادری آبدیدہ ہونے کے بجائے زیر لب مسکرا رہی ہے۔