پاکستان کے انسانی حقوق کی وزارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے قائم کیے گئے شکایتی سیل کو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاستدان خانہ پری قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس میں سیل جس کا پیر کو وزارت وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے افتتاح کیا تھا، کوئی بھی شہری تحریری طور پرای میل، یا ٹیلی فون کال پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے شکایت درج کروا سکتا ہے جس کی چھان بین کے بعد اس درخواست کو متعلقہ اداروں کے حوالے کیا جائے گا اور اس کی پیش رفت پر بھی نظر رکھی جائے گی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والے تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جرمن نشریاتی ادارے ڈویچ ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس شکایت سیل سے کوئی امید نہیں ہے۔ عدالتیں ایسے سیلوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ کمیشن پہلے ہی موجود ہے جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ جج کر رہے ہیں۔ اس کمیشن نے آج تک گمشدہ افراد کے حوالے سے خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی تو یہ شکایتی سیل کیا کرے گا۔
ماما قدیر کے بقول یہ صرف حکومت کی خانہ پوری ہے۔ ”جو بین الاقوامی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے ہے لیکن حکومت گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔
نیشنل پارٹی کے رہنماء سینیٹر اکرم دشتی کا کہنا ہے پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد، اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانا والا سلوک اور توہین مذہب اور توہین رسالت پر لوگوں کو قتل کیا جانا انسانی حقوق کی سنگیں خلاف ورزیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ریاستی پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا انسانی حقوق کے حوالے سے شکایتی سیل بنانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس حوالے سے ریاست کی پالیسی تبدیل ہونی چاہیے۔ ماضی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی اس حوالے سے کوشش کی لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا بالکل اسی طرح اس شکایتی سیل کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک ریاست کی اپنی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے شکایتی سیل یا کمیشن پہلے بھی بنے ہیں لیکن ان کی کوئی خاص کارکردگی نہیں رہی اور یہ کہ وہ اس سے بھی کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ایک اہم مسئلہ جبری طور پر گمشدہ کیا جانا ہے اور انہیں نہیں لگتا کہ یہ شکایتی سیل اس حوالے سے کوئی کام کر سکے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ برس جولائی میں میری وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ 15 دن میں تمام لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا اور گمشدہ افراد کا پتہ لگا لیا جائے گا۔ ہم نے اٹھائیس سو تیس افراد کی لسٹ دی تھی جس میں سے 70 کا پتہ چلا ہے کہ وہ مختلف حراستی مراکز میں ہیں جبکہ 400 قریب ایسے افراد جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر مقدمات چل رہے ہیں یا وہ مختلف جیلوں میں ہیں یا کچھ رہا بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اب بھی دو ہزار سے زیادہ ایسے افراد ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے حکومتی کمیشن کا قیام کئی سالوں پہلے ہوچکا ہے جبکہ لاپتہ افراد کی لواحقین اس کمیشن سے مطمئن نہیں ہیں اور کئی بار وہ شکایت کرچکی ہیں کہ کمیشن کا رویہ غیر مناسب ہے –