نیزہ شب کے سر پر آفتاب طلوع کرنے والا “اسلم”
تحریر: نذیر مراد
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کی رمق عجب الجھی ہوئی ہے یوں نہیں کہ سانسیں بند نہیں ہورہی اور یوں بھی نہیں کہ سانسیں بحال ہیں ،بلکہ معماران قوم اور نیشنلزم کے بڑے بڑے پرچارک بھی انتشارِ بے سبب میں خوش حالی و کامرانی محسوس کررہے ہیں۔کُند یادداشتیں اور زنگ آلود دعوے بڑی اہتمام کے ساتھ سوشل میڈیا اور یاروں کے انجمن میں مختلف مسائل پر کفِ افسوس مَل رہے ہیں۔ اگر ان مسائل کی نشاندہی کی جائے تو ہمارا کھوکھلاپن واضح اور ہماری ضرورتوں کی تفسیر ہوگی مگر پھر یہ سوچتا ہوں کہ “گلہ چہ معنہ دارد”
یوں سمجھیئے کہ میں نے قبل از شعوری بلوغت اسلم کو گنوا دیا۔جنہیں جانے پہچانے بنا کھودینے والوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ بلوچ تحریک کو منفرد گرداننے اور ہر لحاظ سے مکمل کرنے یا ہونے کا دعویٰ نہیں۔مگر چند ایسے نکات ضرور ہیں، جو بلوچ جہد میں بلوچیت پر کاربند رہنے کی بنا پر بڑی حد تک مکمل ہیں۔ بالاچ کے بعد ایسا اگر کوئی نام ہے جسے ہم بلوچ تحریک کے انوکھے سپاہی کے طور پر شمار کریں تو وہ استاد اسلم ہوگا۔
اسلم کیا تھے کیا نہیں شاید اس پر لکھنا میرے لیئے محال ہے مگر بلوچ جہد میں ایک ایسا فرد جو انتہائی باوقار انداز میں مظلوم قوم کی دفاع میں سربستہ ہوکر وہ سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے تھے جو اہلِ جنوں میں بھی شاید ہی کوئی کرسکے۔طوفان کے تھپیڑوں سے نبرد آزما ہونے والے استاد اسلم جس صورتحال کا سامنا کررہے تھے وہ چند ایک دہائیوں کی پیدوار نہیں تھی بلکہ ان میں محراب کے وقتوں سے ڈالی گئی چنگاریاں موجود تھیں۔اسلم کی جنگ محض ایک ریاست سے نہیں بلکہ مکمل ایک ضابطہ حیات سے تھا جو ہمارا نہیں تھا ،بلوچ کا نہیں تھا۔اس کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے زورآزمائی کرنے والوں میں اسلم کا نام بھی نمایاں ہے۔
ایک طویل جغرافیہ رکھنے والی قوم کیلئے اسلم آزادی کی ایک علامت بن چکا ہے۔جو چلتن کی یخ بستہ ہواؤں سے لیکر سائجی کے بے نام گزرگاہوں تک گونجتا رہتا ہے اسلم کے رویئے سے بولان کی دیدہ دلیری اور کوہ سلیمان کی عاجزی چمکتی تھی جو تمام تر مصائب و آلام کے باوجود اپنے اختیار کیئے ہوئے رستے پر ڈٹے رہے۔
ایک ایسا وقت، جب آپ جانتے ہوں کہ زندگی کی آخری سانسیں چند ساعتوں بعد مجھے میسر آئینگے اور میں اپنی تمام تر آوازوں کے باوجود خاموش ہوجاؤں گا مگر ایک ایسا یقین اور پختہ عقیدہ جس کی پرورش تاریخ نے بڑے لاڈ و ناز سے کیا اور حوادث زمانہ اسکی یادداشت میں ثبت ہوتے گئے جو حمل ،جیئند، بالاچ،محراب اور نوروز کی تاریخی شعور کو آگے بڑھانے والا تھا، جس نے خاک کا قرض نہیں بلکہ اس کی سنگت کا حق ادا کیا۔ وہ ان الجھنوں سے دور رہا جس کی آج ہمیں شکایت ہے۔استاد ان حالات کو کٹھن ماننے کیلئے تیار نہیں تھا بلکہ وہ لاشعور میں بلوچ کی قسمت،طبیعت اور رسم و دود کو لیئے ہوئے تھا اور ان سے نبرد آزما ہونا بھی۔
آج خاموشیاں گنگنا کر اسلم کیلئے لوریاں گاتی ہیں اور سکوت چیخ چیخ کر اسکی بہادری کے نغمے سناتی ہے۔مگر کیا محض “آزادی” کی علامت کہنے سے ہم تمام تر ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟ یا ماہ دسمبر کی ماتم زدگی پر وہ یورشیں جو قوم قومیت کی دعویدار تنظیموں تک کے اندر موجود ہیں سے راہ فرار اختیار کرسکتے ہیں؟ کیا محض چند اشعار، چند کالم اور ڈی پی بدلنا ہی آزادی پسند ہونا ہے۔ان معاملات کو گلیمرائز کرنا جو قومی آزادی کے مقابلے میں تنکے کی حیثیت تک نہیں رکھتے اور بعدازاں اپنی بیوقوفی پر خفیف سی شرمندگی کے بعد پھر نئے دعوؤں کے ساتھ میدان میں اترنا اور خود کو ہر معاملے میں ایکسپرٹ سمجھ کر کئی طرح کے گند پھیلانا ہی آزادی کے معماروں کا کام ہے؟ یقیناََ بعض لوگ ان تلخ باتوں سے اظہار ناراضگی کرتے ہونگے اور یہ ان کا حق بھی ہے کیونکہ دعؤوں،کالموں اور تقریروں کی تربیت سے ایک ایسے ہی آزادی پسند کے دعویدار کا جنم ہوسکتا ہے۔ جو اسلم کے افکار، اسلم کی جدوجہد ، بلوچ و بلوچیت سے دور کا سروکار بھی نہیں۔
مگر ایک درد رکھنے والے اور حساسیت اپنائیں ہوئے شخص کیلئے اسلم محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک “مکمل بلوچ” تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں